چند دن پہلے حکومت ہی نے رپوٹ جاری کی کہ ملک میں چلنے والے ‘‘صرف پچاس‘‘ بناسپتی گھی کے کارخانے مضرِ صحت گھی تیار کررہے ہیں۔

یاد آیا کہ چند دن پہلے ملتان سے جعلی خون کی بوتلیں برآمد ہوئیں، ملک میں بکنے والا اسی فیصد دودھ دودھ نہیں بلکہ مختلف کیمیکلز کا مرکب ہے

ہم رشوت کو چائے پانی کہتے ہیں، مردار گدھوں اور کتوں کا گوشت کئی ہوٹلوں اور قصابوں سے پکڑا گیا ہے، سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگائی جارہی ہیں

ڈاکٹرز اب گردے نکال کر بیچ دیتے ہیں، ماؤں نے نارمل طریقے سے بچے جننے چھوڑ دیئے ہیں کیونکہ ڈاکٹرز کے پیٹ نہیں بھرتے

 نتالیس لوگ طیارہ حادثے میں قتل کردیئے گئے اور ایم ڈی پی آئی اے فرمارہے ہیں کہ امید تھی کہ طیارہ ایک انجن سے لینڈ کرلے گا،

بلوچستان میں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں (میلوں سفر کے بعد اگر کوئی گھاٹ مل جائے) اور اسی بلوچستان کے ایک بائیس گریڈ کے افسر کے گھر سے ایک ارب روپے کے قریب کیش برآمد ہوا اور اس افسر کے صرف ڈیفنس کراچی میں اب تک آٹھ بنگلے دریافت ہوچکے ہیں

عوام کو علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں سے دو دو سال بعد کا ٹائم ملتا ہے اور حکمرانِ وقت دنیا کے بہترین ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے علاج کروانے ملک سے باہر جاتے هیں ، پیچھے سے یہی عوام ان کی صحت یابی کی دعائیں کرتے ہیں اور ان کے علاج پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔

اس ملک میں بھتہ نه ملنے پر تین سو انسانوں کو زندہ جلادیا جاتا هے لیکن لوگ اب بھی اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں

اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا تیسری مرتبہ کا وزیرِ اعلٰی انتخابات سے پہلے بڑے بڑے وعدے کرتا ہے اور انتخابات کے بعد اسے جوشِ خطابت قرار دے دیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں جان بچانے والی ادویات بھی جعلی بنتی ہیں

ٹھیکیدار تعمیرات میں ناقص میٹریل استعمال کرتے ہیں اور زلزلوں سے مرنے والے لوگوں کو اللہ پر ڈال دیا جاتا ہے

اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا ساٹھ فیصد بجٹ صرف ایک شہر پر لگا دیا جاتا ہے اور باقی نو کروڑ لوگ اپنے حقوق کے لیے چُوں تک نہیں کرتے، بلكه وہ اپنے علاقے سے ہزار کلومیٹر دور صوبائی دارلحکومت میں کسی سڑک کے بننے پر خوشيان منا تے ہیں جبکہ ان کے اپنے شہر کھنڈر کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں

کہا جاتا ہے کہ تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور آدھی سے زیادہ آبادی کے ليے پوری خوراک بهى نهيں 

اس ملک میں آئے روز بے گناہ عمر قید سے زیادہ قید کاٹ کر پھانسی چڑھ جاتے ہیں اور ہماری عدالتیں بعد میں فیصلہ کرتی ہیں کہ وہ شخص تو بے گناہ تھا

دنیا بھر میں رواج ہے کہ کوئی مجرم عدالت جاتے یا آتے وقت احساسِ ندامت سے اپنا چہرہ چھپاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں بڑے بڑے مجرم حتٰی کے قاتل بھی عدالتوں کے باہر وکٹری سائن بناتے نظر آتے ہیں

اس ملک میں آپ اپنا جائز سے جائز کام بھی خوار ہوئے اور رشوت دیئے بغیر نہیں کرواسکتے، لوگ اپنی محافظ پولیس سے دامن بچا کر دور دور سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں

جو عدالتیں کسی ملک کا وقار ہوتی ہیں اور عوام کا آسرا ` ان کے بارے میں مساجد میں دعائیں کی جاتی ہیں کہ اللہ ہمیں کورٹ کچہری سے بچائے

اور بھی بے شمار چیزیں ہیں لیکن پڑھے گا کون؟

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close