پاکستان کے ساتھ امریکہ کی کرنسی وار شروع ہو چکی ہے۔ ڈالر  کو  تقریبا 200 سے 300 پاکستانی روپے تک لیجانے کی سی آئی اے کی کوشش  رات و رات  سرمایہ کاروں کی خطیر رقم کی منتقلی  یا  بڑی منی لاڈرنگ اسکے بعد ملک میں پر ہیجان کیفیت  اپنے ایجنٹوں کے ذریعے  حکومت کے خلاف زبردست دباو بنانایہ سب ایک خوفناک چال ہے   ۔۔  اس سے پہلے یہ وار  ترکی پر بھی کیا   جا چکا ہے ترکی  کو  ایک  ہی رات  میں  35  فیصد  تک  ڈالر  کی قیمت میں اضافہ برداشت  کرنا  پڑھا جو  پاکستان کی نسبت  بہت  زیادہ  تھا  ۔  لیکن ترک قوم  اسی وقت  متحد  ہو گئی لوگوں نے امریکہ  مخالف نعرے لگائے  بلکہ  امریکہ کی نفرت میں ڈالرز کو  آگ تک لگادی  اور  اپنی حکومت کے ساتھ  کھڑے  ہو گئے  اور   امریکہ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا  اور  قطر  کے بروقت تعاون نے  ترکی کو سمنبھالا  دیا  ۔

 لیکن پاکستان کے سیاسی  لسانی  انتشار  کی وجہ  سے  یہاں صورت حال ابھی مختلف ہے  اس کے لئے  قوم کو  تمام اختلافات  بالائے طاق رکھ  کر  صرف ملکی مفاد  امریکی سازش  کے خلاف  یکجا  ہونا پڑے  گا  تا کہ دشمن کو منہ توڑ  جواب دیا  جائے  اور  حکمت عملی سے  اس  جنگی چال کو بھی شکست دی جائے  ۔ یہ اب دشمن کا آخری  حربہ ہے  وہ  اپنے چہیتوں کو بچانا چاہتی  ہے  جس کے دو فائدے  ان کو صاف نظر  آ رہے ہیں۔ ایک سفارتی سطح پر سخت موقف اپنانے کی اس حکومت کو سزا  دی جائے۔  دوسرا  ان کے ایجنٹوں(کرپٹ غدار سیاہ ستدان اور بیورکریسی ) کو تحفظ فراہم کر کے  لوٹی  ہوئی دولت پاکستان جانے سے بچائی جائے  جس  سے پاکستان کو بہت بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔کرنسی وار  کے اسی خطرے سے معمر قذافی نے مسلم ممالک کو اگاہ کرنا چاہا تھا  تو  امریکہ  نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا  اور  اسے  نشان عبرت بنادیا۔

یہ کیسی وار ہے  اس  کی  تفصیلات کے لیے  جمیز ریکٹ کی ایک کتاب کرنسی وار پر لکھی جا چکی ہے  اس کو پڑھ کر سی آئی اے اور موساد کی ناپاک ذہینت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔اب ہمیں سیاسی اختلافات سے زیادہ اس امریکی چال کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے  یکجا  ہونا پڑے گا۔کیونکہ یہ ملک صرف عمران خان کا نہیں , ھمارا بھی ھے اور ھمیں متحد ھو کر رھنا ھے اور حالات کا مقابلہ کرنا ھے

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close