جیک رسل

”دنیا پاکستان کو خطرناک سمجھتی ہے‘ آپ جب تک یہ حقیقت نہیں مانیں گے آپ پھنستے چلے جائیں گے
“ فضا میں سگار کی بھینی بھینی خوشبو پھیل رہی تھی‘ وہ ناک اور منہ دونوں سے دھواں اگل رہے تھے‘ مجھے تمباکو کی بو سے الرجی ہے‘ میرا سانس گھٹنا شروع ہو جاتا ہے لیکن میں ان کی گفتگو کی وجہ سے تمباکو اور تمباکو کی بو دونوں برداشت کر رہا تھا‘ 
وہ فنانشل ایکسپرٹ تھے‘ والد انڈین تھا اور والدہ امریکن‘ورجینیا میں پیدا ہوئے‘ٹیرر فنانسنگ میں پی ایچ ڈی کی اور عالمی مالیاتی اداروں کے ایڈوائزر بن گئے۔

مذہبا ً مسلمان تھے‘ میری ان سے ایک دوست کے ذریعے ملاقات ہوئی‘ وہ ملٹی نیشنل کمپنی کی دعوت پر پاکستان آئے تھے‘ میرے دوست نے انہیں اور مجھےکھانے پر بلا لیا‘ ہم ریستوران میں ملے‘ ڈنر کیا اور وہ ٹیرس پر بیٹھ کر سگار پینے لگے اور میں ان کے تجربے سے لطف اندوز ہونے لگا‘ ان کا کہنا تھا 
”دنیا پاکستان کو خطرناک سمجھتی ہے‘ 
آپ لوگ لانگ رینج میزائل بھی بنا ر ہے ہیں‘ 
"آپ ایٹمی طاقت بھی ہیں

مگر آپ معاشی لحاظ سے کمزور ہیں چنانچہ آپ دنیا کےلئے کسی بھی وقت مسئلہ بن سکتے ہیں"
 وہ رکے‘ سگار کا لمبا کش لیا اور بولے ”آپ لوگوں کو دنیا کی اس آبزرویشن کو سیریس لینا ہو گا ورنہ آپ اپنا  نقصان کر لیں گے“
 میں خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا‘ وہ بولے 

”معیشت دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے‘ آپ اگر معاشی طور پر طاقتور ہیں تو آپ ایٹم بم بھی رکھ سکتے ہیں اور میزائل بھی بنا سکتے ہیں‘ یہ دونوں چین اور روس کے پاس بھی ہیں لیکن دنیا کو ان سے کوئی خطرہ نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا سمجھتی ہے یہ دونوں ملک معاشی لحاظ سے مستحکم ہیں‘ یہ کبھی اس دنیا کےلئے خطرہ نہیں بنیں گے جو انہیں کما کر دے رہی ہے لیکن پاکستان کمزور ملک ہے‘ یہ زیادہ دیر تک ایٹمی اثاثوں کی حفاظت نہیں کر سکتا‘ یہ رقم کےلئے اپنے اثاثے فروخت بھی کر سکتا ہے اور نفسیاتی دباﺅ میں آ کر ان کو استعمال بھی چنانچہ آپ دنیا کےلئے ناقابل برداشت ہیں۔

میں آپ کو یہ ایشو ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں‘ فرض کر لیجئے آپ ایک غریب انسان ہیں اورآپ کے پاس ایک نہایت ہی مہلک اور قیمتی رائفل ہے‘ آپ اس رائفل سے کیا کیا کر سکتے ہیں؟ آپ پیسے کمانے کےلئے یہ رائفل فروخت بھی کر سکتے ہیں اور آپ دوسرے کی کنپٹی پر رکھ کر اسے لوٹ بھی سکتے ہیں‘ دنیا کا خیال ہے آپ ایک ایسے ہی بھوکے اور غریب رائفل بردار ہیں اور آپ کسی بھی وقت دونوں میں سے کوئی ایک آپشن اڈاپٹ کر سکتے ہیں“۔ 

وہ رکے‘ سگار کا ایک اور کش لیا اور بولے ”آپ کے خلاف یہ تاثر انڈیا نے پھیلایا ہے‘ بھارتی حکومت نے 1990ءکی دہائی میں بے شمار طالب علموں کو وظائف دے کر امریکا‘ کینیڈا‘ یورپ اور مشرق بعید کے ملکوں میں بھجوایا‘ اعلیٰ اداروں سے ڈگریاں کرائیں اور پھر انہیں عالمی اداروں میں بھرتی کرا دیا‘ یہ لوگ امریکی کانگریس مین اور سینیٹرز کے سٹاف میں بھی شامل ہیں اور یہ میڈیا انڈسٹری اور تھنک ٹینکس میں بھی بیٹھے ہیں‘ یہ لوگ وہاں بیٹھ کر روزآپ کے خلاف خوف پھیلاتے ہیں اور دنیا اس خوف کو سچ مان لیتی ہے۔

آپ کا ماضی بھی اس سچ کی دلیل بن جاتا ہے‘ دنیا جانتی ہے آپ لوگوں نے تنہا سوویت یونین جیسی طاقت کو توڑ کر پھینک دیا تھا‘ آپ نے اکیلے بھارت جیسی طاقت کو اٹھنے نہیں دیا اور آپ تمام معاشی کمزوریوں کے باوجود جو چاہتے ہیں آپ کر گزرتے ہیں‘ آپ نے جے ایف تھنڈر تک بنا لئے ہیں چنانچہ عالمی پالیسی ساز سمجھتے ہیں آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں“ وہ رکے‘ ایک اور کش لیا اور بولے ”پاکستان کے بارے میں میری سٹڈی ہے عالمی طاقتیں آپ کو جنگ کا موقع نہیں دیں گی۔

یہ سمجھتی ہیں آپ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے ‘ آپ جنگ کا آغاز ہی آخری ہتھیار سے کریں گے اور یہ پوری دنیا کےلئے خطرناک ہو گا چنانچہ یہ آپ کو اس لیول پر نہیں جانے دے گی‘ آپ دو ماہ پیچھے چلے جائیں‘ بھارت نے بالاکوٹ میں سرجیکل سٹرائیک کی‘ پاکستان نے شور کیا لیکن دنیا کا کوئی ملک پاکستان کی مدد کےلئے سامنے نہ آیا‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا اندازہ کرنا چاہتی تھی آپ کس لیول تک ری ایکٹ کر سکتے ہیں‘ آپ نے اگلے ہی دن بھارت کے دو طیارے مار گرائے‘ بھارت نے 27فروری کی درمیانی رات سرحد پر 9 میزائل نصب کر دیئے‘ آپ نے 14 کر دیئے۔

27 فروری کی رات کولڈ وار کے بعد دنیا کی خطرناک ترین رات تھی‘ ایک چھوٹی سی شرارت پوری دنیا کو تباہ کر سکتی تھی چنانچہ دنیا فوراً متحرک ہوئی اور بڑی مشکل سے آگ ٹھنڈی کی‘ یہ ایک ٹیسٹ تھا‘ اس ٹیسٹ سے پتہ چلا آپ لوگ ہر وقت حتمی جنگ کےلئے تیار رہتے ہیں لہٰذا یہ آپ کو آئندہ کبھی اس سطح تک نہیں جانے دیں گے‘ یہ اب آپ کو میزائل باہر نکالنے کا موقع نہیں دیں گے‘ یہ سرحدوں پر بھی آپ سے چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے
‘ عالمی طاقتیں آپ کو معاشی لحاظ سے تباہ کریں گی“ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔

وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ”آپ میری بات نوٹ کر لیں ‘آئی ایم ایف نے جان بوجھ کر آپ کا پیکج لیٹ کیا‘ یہ اب بھی آپ کو بار بار ترسائے گا‘ یہ ڈالر مزید مہنگا کرائے گا‘ یہ مہنگائی کو بارہ فیصد تک لے جائے گا‘ یہ پٹرول‘ گیس اور بجلی بھی مزید مہنگی کرائے گا ‘ یہ ترقیاتی بجٹ بھی کم کرادے گا ‘یہ بے روزگاری بھی بڑھائے گا‘ یہ ریاست کے ذریعے کالعدم تنظیموں پر بھی اتنا دباﺅ بڑھائے گا کہ یہ حکومت کے خلاف بغاوت کر دیں گی‘ یہ پاکستان کی ایکسپورٹ بھی نہیں بڑھنے دے گا۔

یہ سٹاک ایکسچینج بھی نہیں اٹھنے دے گااور یہ ٹیکسوں میں بھی اضافہ کرا دے گاتاکہ عوام اس معاشی بوجھ تلے آ کر کریش ہو جائیں اور یہ حکومت اور ریاست دونوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں“ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ 
وہ بولے ” اور یہ پاکستان کے خلاف ایک گرینڈ ڈیزائن ہے‘ آپ نے کتوں کی جیک رسل نسل کے بارے میں سنا ہوگا‘ یہ چھوٹے سائز کا خوفناک کتا ہوتا ہے‘ یہ ریچھ کا پیچھا کرتا ہوا اس کے غار میں گھس جاتا ہے‘ یہ سائز میں اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ریچھ اس کو پکڑ نہیں سکتا۔

یہ ریچھ کے پیچھے چھپ کر اس کو اتنا زخمی کر دیتا ہے کہ وہ اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں ہو سکتا‘ جیک رسل مکمل تسلی کے بعد غار سے نکلتا ہے‘ مالک کو اطلاع کرتا ہے اور شکاری غار کے دہانے پر پہنچ کر ریچھ کو گولی مار دیتا ہے

‘ عالمی مالیاتی ادارے بھی جیک رسل ہوتے ہیں‘ یہ اپنے چھوٹے چھوٹے دانتوں اور جبڑوں سے دیو ہیکل ریچھوں کو زخمی کر دیتے ہیں‘ ریچھ جب اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہتے تو پھر بڑا شکاری آتا ہے اور ریچھ کو گولی مار دیتا ہے۔

آپ نوٹ کر لو آپ کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے
‘ پاکستان پر جیک رسل چھوڑ دیئے گئے ہیں‘ یہ آپ کو زخمی کر رہے ہیں‘ یہ آپ کو معاشی طور پر اتنا کمزور کر دیں گے کہ آپ میزائل چلانا تو دور آپ انہیں باہر نکالنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے‘ آپ کے پاس سرکاری ملازموں کی تنخواہوں کے پیسے بھی نہیں رہیں گے اور آپ ٹیکس کولیکشن فوج کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور یہ جس دن ہو گیا آپ اس دن اپنے دن گننا شروع کر دینا کیونکہ ٹیکس کولیکشن فوج کی بدنامی کا باعث بن جائے گی۔

لوگوں کے دلوں میں محبت کم ہونا شروع ہو جائے گی اور عالمی ادارے یہی چاہتے ہیں‘ یہ آپ کو معاشی طور پر بھی زخمی کرنا چاہتے ہیں اور یہ عوام کے دل سے محبت بھی کھرچنا چاہتے ہیں اور آپ جس دن اس لیول پر آ گئے یہ آپ کو اس دن بھارت کے قدموں میں بٹھا دیں گے‘ یہ آپ کو بھوٹان اور مالدیپ بنا دیں گے‘ آپ امداد لیتے جائیں گے اور ملک چلاتے جائیں گے اور بس“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں انہیں خوف سے دیکھنے لگا‘ وہ بولے ”پاکستان کا مستقبل کیا ہے‘ یہ فیصلہ چھ ماہ میں ہو جائے گا۔

آپ کی اکانومی اگر ٹیک آف نہیں کرتی‘ اگر مارکیٹ میں استحکام نہیں آتا تو پھر آپ کو کوئی معجزہ ہی بچا سکے گا‘ آپ گرداب میں پھنس جائیں گے“ وہ سیدھے ہوئے‘ سگار بجھایا‘ ایش ٹرے میں مسلا اور اٹھ کھڑے ہوئے‘ وہ رخصت ہونا چاہتے تھے‘ ہم ریسپشن کی طرف بڑھنے لگے‘ میںنے چلتے چلتے پوچھا ”بچت کا راستہ کیا ہے“ وہ مسکرا کر بولے 

”پاکستان کی بچت کے تین راستے ہیں 
معیشت‘ معیشت اور معیشت“ 

صرف اور صرف معیشت پر دھیان دیں‘ ملک کو چلنے دیں‘ آپ سب بچ جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں آپ کا پورا ملک انا اور حماقت کی نذر ہو جائے گا‘
 آپ مقدمے چلانے کےلئے بھی قرض لینے پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ آئی ایم ایف سے رقم لے کر ججوں اور وکیلوں کو تنخواہ دیں گے اور جیلوں میں بند ملزموں کے کھانے کا بندوبست کریں گے“۔ انہوں نے بات مکمل کی‘ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور رخصت ہو گئے 
لیکن میں کھڑا ہو کر سوچتا رہا‘ کیا یہ شخص واقعی سچ کہہ رہا ہے؟ مجھے جواب نہیں ملا‘ شاید آپ کو مل جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close