وہ زمانے گئے جب سیلف-ڈرائیونگ کاریں ٹیسٹ ٹریکس پر چلا کرتی تھیں یا اُنہیں شہر کے مخصوص علاقوں میں آزمایا جاتا تھا۔ آج یہ امریکا کے شہروں نیو یارک، سان فرانسسکو اور پٹس برگ میں عام ٹریفک میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یورپ میں، جنوبی کوریا، سنگاپور اور جاپان میں بھی عام سڑکوں پر اپنی مہارت ثابت کر رہی ہیں اور اب یہ تیاری کر رہی ہیں پاکستان و بھارت جیسے ممالک کے لیے، یعنی دنیا کے بدترین ٹریفک میں بھی چل سکیں۔
دنیا کے تمام ممالک اور شہروں کی طرح ٹریفک کا بھی ایک مزاج ہوتا ہے، جس میں قومی مزاج جھلکتا ہے۔ جارحانہ ڈرائیونگ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک میں کی جاتی ہے اور اس پر طرّہ شہر کی پیچیدہ سڑکیں، جو ان شہروں کو ترقی یافتہ دنیا کے علاقوں سے بالکل مختلف بناتی ہیں۔ جہاں لین کا احترام نامی کوئی شے نہ ہو، سگنل کو خاطر میں نہ لایا جائے، خطرے کے اشاروں کی پروا نہ ہو اور حد رفتار کو کوئی لفٹ ہی نہ کرائے، جہاں چوڑی سڑکیں ہوں لیکن لینز ندارد، چوراہوں پر وہ ہنگامہ کہ الامان الحفیظ! جہاں ٹریفک کا بہاؤ انسانی رویّوں پر چلے، جہاں دو ڈرائیورز ایک دوسرے سے فاصلے پر ہونے کے باوجود ارادے جان جائیں، وہ بھی بغیر کسی قانونی تقاضے کو پورا کیے، وہاں پر یہ سیلف ڈرائیونگ یعنی خودکار گاڑیاں کیا کریں گی؟یہ سوالات بہت بڑے ہیں اور ان کے جوابات بہت مشکل۔
دراصل یہ “نظام” دنیا کے بیشتر ممالک میں چل رہا ہے لیکن اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ٹریفک حادثات میں دنیا کے 50 بدترین ممالک میں سے 44 افریقہ یا مشرق وسطیٰ میں ہیں۔ آخری بار جب 2013ء میں عالمی ادارۂ صحت نے اعداد و شمار جاری کیے تھے تو ان ممالک میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ اموات حادثوں کے نتیجے میں ہوئی تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خودکار ڈرائیونگ کی ضرورت اگر کسی کو سب سے زیادہ ہے تو وہ یہی علاقے ہیں لیکن حقیقت بھی یہی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ٹیکنالوجی یہاں نظر نہیں آتی۔ یونیورسٹی آف مشیگن کے فورڈ سینٹر فار آٹونومس وہیکلز کے شریک ڈائریکٹر رام واسودیون کہتے ہیں کہ “اس وقت سیلف-ڈرائیونگ کے شعبے میں جو کچھ ہو رہا ہے یا کسی تیسری دنیا کے ملک میں کام نہیں کرے گا۔”
دراصل خودکار ڈرائیونگ کو سڑک پر موجود افراد کے ارادوں اور سمت کی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ گاڑیاں ہوں یا سائیکلیں، راہ گیر ہوں یا تعمیراتی کام کرنے والے مزدور، کھیلتے ہوئے بچے ہوں یا پالتو جانور۔ ڈرائیونگ کا ماحول ان قواعد سے مرتب ہوتا ہے جن کی لوگ پیروی کرتے ہیں، انہی کے گرد خودکار گاڑی کے مزاج کو بھی ترتیب دیا جاتا ہے۔ اب آپ خود تصور کیجیے کہ ‘رانگ سائیڈ’ سے ایک گاڑی 50 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے آ رہی ہو تو بیچاری سیلف-ڈرائیونگ کیا کرے گی؟ جب سگنل سرخ ہو لیکن ایک کار کنّی کتراتے ہوئے نکل جائے تو؟ یا پھر کوئی گاڑی لین میں چلنے کے بجائے زگ زیگ چل رہی ہو تو؟ بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں کمپیوٹر وژن کے ماہر اور انجینیئرنگ کے پروفیسر ڈینیل اسمار کے مطابق “لبنان میں کوئی ٹریفک قانون نہیں، یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ انسان تو اس صورتحال سے نمٹ سکتا ہے، اسے غصہ آئے تو وہ زوردار ہارن بجا سکتا ہے۔” لیکن کمپیوٹر کے لیے یہ بدنظمی بہت بڑا چیلنج ہوگی۔
واسودیون کہتے ہیں کہ جہاں قانون کی پیروی کی جاتی ہے، وہاں پر کسی سڑک کا شاہراہ سے ملنے کا مقام ہی سیلف-ڈرائیونگ کار کو گڑبڑانے کے لیے کافی ہے۔ نتیجے میں سیلف ڈرائیونگ کار ٹریفک بھی جام کر سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کوئی حادثہ بھی کر بیٹھے۔ یہ مسئلہ کار کے سافٹویئر کی وجہ سے نہیں، بلکہ ‘سیف سائیڈ’ پکڑنے کی وجہ سے ہے کہ وہ ایک تیز رفتار گاڑی کی راہ میں آنے سے بچنے کی کوشش کرے گی یا پھر اسے اس صورتحال کو سمجھنے میں کچھ تاخیر ہوگی۔
پھر سیلف ڈرائیونگ کاروں کو اس ڈیٹا کو کشید کرنے میں مدد کی ضرورت ہے جو دنیا کے بیشتر حصوں میں درحقیقت وجود ہی نہیں رکھتا۔ خودکار ڈرائیونگ کو سڑکوں کے انتہائی تفصیلی نقشوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہاں تک کہ اسپیڈ بریکرز کی اونچائی سے لے کر کسی تعمیراتی کام کی وجہ سے عارضی رکاوٹ، سڑک پر موجود اشاروں کے درست مقام سے لے کر ٹریفک لائٹس کی موجودگی تک بھی۔ ان شہروں کے تو یہ نقشے پہلے سے موجود ہیں جہاں سیلف-ڈرائیونگ پر کام کیا جا رہا ہے، انہیں اپڈیٹ بھی کیا جاتا رہا ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں کہ جہاں گوگل اور ایپل کے 2ڈی نقشوں میں ہی کئی بنیادی خامیاں ہیں، یہاں معمولی سے ڈیٹا کی عدم موجودگی بھی بہت پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر کہیں کے تفصیلی نقشے بھی موجود ہیں بھی تو ان کو بارہا اپڈیٹ کرنے کی ضرورت پڑتی ہیں۔ اسمار کے مطابق ایک منظم ماحول میں تو شاید اتنا اپڈیٹ کرنے کی ضرورت نہ پڑے لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں ماحول اور اردگرد کی چیزیں بہت تیزی سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں، آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آپ کو کتنی بار اسے اپڈیٹ کرنا پڑے گا۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔
مشرق وسطیٰ کے چند امیر ممالک خودکار ڈرائیونگ کی طرف قدم بڑھا چکے ہیں۔ اسرائیل کے ادارے خودکار ڈرائیونگ سافٹویئر کی تیاری میں اہم ہیں اور ملک میں گزشتہ ماہ ہی ڈرائیور کے بغیر کاروں کے لیے پہلا ٹیسٹ ٹریک بھی کھولا گیا ہے۔ دبئی میں ایک 10 نشستوں کی ڈرائیور کے بغیر چلنے والی شٹل پچھلے سال سے شہر کے مخصوص علاقوں میں چل رہی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 2030ء تک ایک چوتھائی مقامی سفر سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں کے ذریعے ہوگا۔ رواں سال کے اختتام پر دبئی پولیس چھوٹی سیلف-ڈرائیونگ پٹرول کاریں چلانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
لیکن بھارت اور چین میں کیا ہوگا؟ یہاں کی ٹریفک صورتحال سڑکوں پر تو شاید مستقبل قریب میں اس کی اجازت نہ دے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ممالک سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں پر کافی کام کر رہے ہیں اور اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ سخت مشکل سے دوچار ہیں۔ بھارت کے ادارے ‘ٹاٹا’ نے بنگلور میں ایک ٹیسٹ ٹریک بنایا ہے جو مقامی سڑکوں کی طرح کا ہے، جہاں بے پروا راہگیر بھی ہیں اور آوارہ گائے بھینسیں بھی چلتی ہیں۔ ادارے کا کمپیوٹر-وژن سسٹم سڑکوں پر موجود 15 فیصد گاڑیوں کو شناخت کرنے میں ناکام رہا ہے، جس کی وجہ ہے گاڑیوں کی اقسام اور حجم میں بہت بڑا فرق۔ جب اوبر کے سی ای او ٹریوس کیلانک نے گزشتہ سال بھارت کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے ازراہ مذاق کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ سیلف ڈرائیونگ کاریں پانے والا بھارت دنیا کا آخری ملک ہوگا۔ یہ بات تو خیر مذاق تھی، لیکن مذاق ہی مذاق میں انہوں نے بہت بڑی حقیقت بھی بیان کی۔
دریں اثناء، چین کا ادارہ بیڈو 50 سے زیادہ بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے ملک میں خودکار ڈرائیونگ کے ٹیسٹ کر رہا ہے۔ ایک حالیہ وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بیڈو کے سی ای او رابن لی ایک سیلف ڈرائیونگ گاڑی میں بیجنگ کی سڑکوں پر جا رہے ہیں۔ کیونکہ اس وقت سیلف ڈرائیونگ کاروں کو سڑک پر لانے کی قانونی اجازت نہیں، اس لیے چینی پولیس تحقیقات کر رہی ہے کہ رابن لی نے قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔ بھارت بھی خودکار گاڑیوں پر ایسی ہی پابندی لگانے پر غور کر رہا ہے۔ ان حالات کے باوجود بیڈو کے صدر یا-چن چینگ کہتے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ اگلے سال ہی میں ادارے کی خودکار کاریں سڑکوں پر موجود ہوں گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close