دنیا کا مشکل کام اجتماعی قبریں کھودنا ہے ، دنیا کی وزنی چیز بچوں کی لاشیں اٹھانا ہیں ،ہزارہ برادری مدت سے یہ دونوں کام کر رہی ہے 

جلیلہ حیدر نے روتے ہوئے ایک جملہ کہا تھا 
سال میں اتنے دنبے ذبح نہیں ہوتے جتنے ہم ہزارہ والے ذبح کیے جاتے ہیں ، ہماری ہزاروں عورتیں بیوہ ہیں ، ہزاروں بچے یتیم ہیں 
سمجھ نہیں آتی خدا کی بستی میں خدا کے بندوں پر اتنا ظلم کیوں ہے ؟
سچ یہ ہے کہ اب رونا بھی نہیں آتا ، روز روز کا رونا آنسو ختم کر دیتا ہے ، بے حسی اور بے بسی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں 
بے حسی یہ ہے کہ لاش دیکھ کر آنکھ نم ہوتی ہے اور مسلک کا علم ہوتے ہی غمی خوشی میں بدل جاتی ہے ، ہمارا دکھ مسلک دیکھ کر جاگتا ہے اور مسلک دیکھ کر مر جاتا ہے۔
ہم نہیں سوچتے کہ مسلک بدلنے سے دکھ کی تعریف نہیں بدلتی ، ماں ماں ہوتی ہے اسکے سینے میں بھی دل ہوتا ہے 
بے بسی اس وجہ سے ہے کہ لکھنے کے علاوہ کچھ کر نہیں سکتے ، ریاست سے پوچھ نہیں سکتے ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟
میری ماں جیسی ریاست ہم سے ٹیکس لے اور شوق سے لے، ہمیں کوئی سہولت نہ دے بس جینے کا حق دے دے ، ریاست ہماری حفاظت کرے روٹی کا بندوبست ہم خود کر لینگے 

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close