لندن کی ٹیٹ ماڈرن گیلری کی عمارت کی 10ویں منزل سے ایک چھ سالہ بچے کو پھینکنے والے ایک برطانوی نوجوان کو 15 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
لندن کے علاقے نارتھ ہولٹ کے 18 سالہ رہائشی جونٹی بریوری کے بارے میں استغاثہ کے وکلا کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اگست میں ملزم نے بچوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اس واردات کا نشانہ بننے والے بچے کے سر میں ایسے زخم آئے جس سے ان کی زندگی پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اولڈ بیلی کی عدالت میں جج میکگوان نے کہا کہ جونٹی بریوری کا قتل کا ارادہ تھا اور انھوں نے چھ سالہ بچے کو موت کے کنارے پہنچا دیا تھا۔

جج نے بریوری کی طرف سے اقدام قتل کے اعتراف کے بعد سزا سناتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’چھوٹے بچے کو ایسے زخم آئے ہیں جن کا بالکل ٹھیک ہونا مشکل ہے اور اس سے ان کی زندگی برباد ہو گئی ہے۔‘
جج نے مجرم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’تم اس مقام پر گئے جہاں سے نظارہ کیا جاتا ہے، تم نے اِدھر اُدھر دیکھا اور بچے اور اس کے گھر والوں کو دیکھا اور پھر اس بچے کے قریب جا کر اسے جنگلے کے اوپر سے نیچے پھینک دیا۔

‘اس بچے کو جو خوف محسوس ہوا ہو گا اور اس کے والدین پر جو گزری ہو گی اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
‘اس دن جو کچھ تم نے کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تم لوگوں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہو۔ تم نے یہ سارا منصوبہ بنایا اور اس سے ہونے والی بدنامی سے تم تسکین حاصل کرنا چاہتے تھے۔‘

واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟

عدالت کو بتایا گیا کہ گزشتہ سال4 اگست  کو بریوری ٹیٹ ماڈرن گیلری کی بالکونی پر گئے اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کی تلاش میں تھے اور جنگلے کے اوپر سے نیچے بھی دیکھ رہے تھے۔
جرم کا نشانہ بننے والا بچہ فرانس سے لندن سیر کرنے اپنے والدین کے ساتھ آیا تھا اور اس ویڈیو میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے والدین سے آگے بریوری کی طرف آرہا تھا۔
استغاثہ کی وکیل دینا ہیر نے کہا کہ ’مجرم نے بچے کو اٹھایا اور بغیر کسی ہچکچاہٹ وہ جنگلے کی طرف گیا اور اسے جنگلے کے اوپر سے نیچے پھینک دیا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ بچہ سر کے بل پانچویں منزل کی بالکونی پر آ گرا۔
سو میٹر کی اونچائی سے سر کے بل گرنے کے باوجود بچے کی جان تو بچ گئی لیکن بچے کے سر میں اندرونی زخم آئے اور کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں جس کے بعد وہ کبھی معمول کی زندگی نہیں گزار سکے گا۔ وہ اب مستقل طور پر معذور ہوگیا ہے اور چل پھر نہیں سکتا۔
بچے کو گزشتہ سال ستمبر میں فرانس کے ایک ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا جہاں اسے کم از کم اگلے دو برس تک چوبیس گھنٹے نگہداشت کی ضرورت ہے۔
بریوری کے دفاع میں وکیل صفائی پیپا میکا اٹسنی نے کہا کہ جن دنوں میں یہ جرم ہوا اس دوران ہیمرسمتھ اینڈ فل ہیم کونسل کی طرف سے بریوری کی نگہداشت کی جا رہی تھی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اس سے قبل وہ عملے پر حملے کر چکے تھے اور اس سب کے باوجود انھیں بغیر کسی نگرانی کے چار گھنٹوں سے زیادہ گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہیں تھی۔
وکیل صفائی نے اس ریکارڈنگ کا حوالہ بھی دیا جس کی کاپی بی بی سی کے پاس بھی ہے جس میں بریوری کو اپنی نگرانی کرنے والے عملے کو ایک سال قبل یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے والدین نے خطوط کے ذریعے یہ مطلع کیا تھا کہ بریوری نفسیاتی مریض ہیں اور انھیں بہت پیار کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دونوں والدین نے ان کی زندگی بہتر کرنے کی بہت کوشش کی۔
انھوں نے کہا کہ ’والدین کو ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ ان کا بیٹا ایسا جرم کرنے والا ہے۔ جو ان کی نگہداشت کے ذمہ دار تھے انھوں نے اس چونکا دینے والی ریکارڈنگ کے بارے میں کبھی انھیں آگاہ نہیں کیا جو بعد میں میڈیا پر جاری کی گئی۔‘
جرم کا نشانہ بننے والے بچے کے والدین سے فروری میں لیے جانے والے بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ اس لڑکے کی حرکت ناقابلِ بیان ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس حرکت کی وجہ سے جس اذیت اور ذہنی تکلیف سے وہ گزرے ہیں اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ ان کا بچہ جو چھ مہینے سے ہسپتال میں ہے، وہ نہیں جانتا کہ وہ ہسپتال میں کیوں ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close