ایس ایس پی ریٹائرڈ نیاز احمد کھوسہ کی ڈائری سے ایک زبردست کیس کا احوال 
ایک لڑکی اپنے عزت بچاتے ہوئے اپنے چار سالہ بیٹے کے سامنے قتل ہوگئی، ہم اپنی پوری کوششوں کے باوجود اُس کو انصاف نہ دلاسکے۔

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
                                    اے چاند یہاں نہ نکلا کر

قتل کے ہر کیس کا موقعہ ڈیس ایس پی اور ایس ایس پی نے لازمی دیکھنا ہوتا ہے۔ 

مجھے انسپیکٹر فرید نے فون کیا کہ” سر گُلستان جوہر میں ایک خاتون کا قتل ہوگیا ہے آپ آکر موقعہ دیکھ لیں” 
میں کچھ دیر  میں علائقہ ڈی ایس پی مسٹر ڈاکٹر نجیب  موجودہ ایس ایس پی ٹریفک ویسٹ کے ساتھ موقعہ پر موجود تھے۔

واقعہ یہ تھا کہ خاتون خانہ کا شوہر صبح کو جیسے ہی اپنی جاب پر جانے کیلئے فلیٹ سے نکلا ۔تھوڑی دیر میں خاتون کے شوہر کے ایک رشتہ دار نے بیل بجائی اور گھر میں آگیا ۔اُس وقت خاتون خانہ اپنے 4 سالہ بیٹے کو اسکول بھیجنے کیلئے تیار کررہی تھی نوجوان نے آتے ہی خاتون سے دست درازی شروع کردی۔ خاتوں لڑنے مرنے پر اُتر آئی۔


 لڑکا اس صورت حال کیلئے تیار نہیں تھا جب لڑکے نے دیکھا کہ بات بگڑ رہی ہے تو جلدی سے کچن میں گیا اور سبزی کاٹنے والی چُھری سے خاتون پر حملہ کردیا اور چُھریوں کے وار کر کے اُسے بُری طرح زخمی کردیا اتنے میں باہر کام کرنے والی نوکرانی نے بیل بجائی تو لڑکا بوکھلا گیا اور جلدی میں باہر کا دروازہ کھولا اور نکل بھاگا۔

 دروازے کے ساتھ خاتون کا 4 سالہ بیٹا کھڑا تھا جو دروازہ اچانک کُھلنے کی وجہ سے سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوگیا تھا اور بچہ  اسُ آفت ناگہانی کو دیکھ رہا تھا۔ ( یہ تو بچے کی زندگی تھی کہ عین وقت پر نوکرانی آ گئی ورنہ ایسے موقعہ پر  ملزمان پہچانے جانے کے ڈر سے پورے کے پورے خاندان  کو قتل کر دیتے ہیں۔

نوکرانی نے اندر داخل ہو کر دیکھا کہ خاتون اور بچہ دونوں زخمی ہیں، نوکرانی نے باہر نکل کر شور کیا ساتھ کے فلیٹوں سے لوگ نکل آئے اور چوکیدار بھی گیٹ چھوڑ کر اوپر آگیا نوکرانی چیختی چلاتی رہی مگر کوئی اپنی کار نکالنے کیلئے تیار نہ ہوا کیوں کہ ایسے موقعہ پر ہم لوگ اپنی “قیمتی” کار کے سیٹ کور خون آلود نہیں کرنا چاہتے ۔

مجبوراً چوکیدار نیچے گیا اور منت سماجت کرکے ایک رحم دل ٹیکسی والے کو راضی کیا ( ورنہ گاڑی خون سے خراب ہونے کے ڈر سے ٹیکسی والے بھی انکار کرتے ہیں) اور لوگوں کی مدد سے خاتون اور بچےکو ٹیکسی میں منتقل کیا نوکرانی دونوں زخمیوں کو لے کر سول اسپتال چلی گئی خاتون زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے راستے میں ہی فوت ہوگئی۔

موقعہ واردات دیکھتے وقت میں ایک بات سے الجھن کا شکار ہو رہا تھا کہ باتھ روم کے فرش پر خون کے قطروں کے نشانات تھے نوکرانی کا کہنا تھا کہ فلیٹ کا دروازہ جیسے ہی کھلا، ملزم لڑکا اُسے ( نوکرانی)  کو دھکا دیکر سیڑیوں کی طرف بھاگا۔

نوکرانی نے اندر داخل ہوکر دیکھا کہ خاتون خانہ بیڈ کے ایک سائیڈ پر خون میں لت پُت پڑی مدد کیلئے چیخ رہی تھی، میں نے اُس سے پوچھا کہ باتھ روم کے فرش پر کس کا خون ہے تو اُس نے بتایا کہ خاتون تو چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھی اور وسوق سے کہا کہ خاتون تقریباً بیہوشی کی حالت میں تھی۔

خاتون کا شوہر ،دوسرے رشتیدار اور پولیس بھی ہسپتال پہنچ گئی وہاں بچے نے سب کو بتایا کہ یاسر انکل نے اُس کی ماں کو چُھری سے زخمی  کیا ہے، ڈی ایس پی ڈاکٹر نجیب اور انسپیکٹر فرید نے شام تک لڑکے کو گرفتار کر لیا۔ملزم لڑکے کے دائیں ہاتھ پر تازہ پٹی کی ہوئی تھی زخم کے متعلق پہلے تو ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا مگر تھوڑی سی چھترول کے بعد راستے پر آگیا ۔



اس نے بتایا کہ جیسا کہ چُھری کا سائز چھوٹا تھا اور خاتون پر وار کرتے وقت خون کی وجہ چُھری کے ہتھیے سے اُس  کا ہاتھ پھسلا اور اُس کی دو انگلیاں زخمی ہو گئیں اور مزید بتایا کہ دروازے پر گھنٹی بجتے ہی وہ جلدی میں باتھ روم میں گیا اور چُھری واش بیسن میں چھوڑی اور اپنے زخمی انگلیاں پانی سے دھوئیں اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا اور موٹر سائیکل پر قریبی ہسپتال گیا اور پٹی کرا لی۔

ایف آئی آر درج ہوگئی، باتھ روم میں خون کے قطروں کا معمہ حل ہوچُکا تھا، پولیس ثبوتوں کے لیئے ہمیشہ ایک سیمپل لیتی ہے مگر میں نے اپنے افسروں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ دو سیمپل لیا کریں لہاذہ باتھ روم سے دو خون آلود ٹائل نکال کر ایک ٹائل اور خاتون کے خود آلود کپڑے، چُھری اور دوسری ضروری چیزیں پولیس کے کیمیکل آگزامنر کو ارسال کردیں گئیں۔

جیساکہ یہ ایک قتل کا عام کیس تھا ملزم گرفتار ہوچُکا تھا اور ڈی ایس پی ڈاکٹر نجیب اور انسپیکٹر فرید دین   جیسے اچھے  افسر اس کیس کو دیکھ رہے تھے، ضروری کاروائی کے بعد کیس کا چالان شیشن کورٹ ایسٹ میں کردیا گیا اور ضروری ثبوت اور گواہیاں ترتیب دے دی گئی تھیں اور ملزم کی بچت کے تقریباً سارے دروازے بند کر دیئے گئے تھے اس لیئے میں بے فکر ہوکر اپنے روز مرہ کے کام میں مصروف ہوگیا۔ 

تقریباً ایک مہینے بعد انسپیکٹر فرید دین  پسینے میں شرابور میرے پاس پریشان حالت میں آیا اور  بتایا کہ “سر ظلم ہو گیا ہے حنا کا قتل کیس خراب ہوگیا ہے” میں چونک گیا فرید نے اپنے تھیلے سے ایک سیل شُدہ ٹائل نکالا اور مجھے دکھاتے ہو بتایا کہ “ سر ٹائل بدل دیا گیا ہے اور کیمیکل ایگزامینر نے ارسال شُدہ سیمپل کی جگہ مارکیٹ سے نیا ٹائل لے کر سیل کرکے میرے حوالے کردیا ہے” بتایا کہ سر دوسرا اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ خاتون کے کپڑوں سے ملنے والا خون اور ٹائل سے ملنے والا خون خاتون کا ہے” ۔

کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ پڑھ کر میرا سر خود چکرا کر رہ گیا، کیون کہ  ٹیکنیکل رپورٹ نے کیس کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا تھا۔

 جیساکہ میں پہلے بتا چکا ہوں ہم ہر ثبوت کے دو سیمپل لیتے ہیں اس لیئے میں ہمت نہیں ہارا اور انسپیکٹر فرید کو کہا کہ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں دوسرا ٹائل ہمارے پاس موجود ہے ہم ڈی این اے کرا لیتے ہیں مگر اس میں دقّت یہ تھی ملزم ہمارے پاس نہیں تھا اور عدالتی ریمانڈ پر جیل میں تھا اور عدالت کی اجازت کے بغیر اُس کا خون کا سیمپل لینا ممکن نہیں تھا۔ میں نے انسپکٹر فرید کو حُکم دے دیا کہ وہ مُلزم کے خون کا سیمپل لینے کیلئے سیشن جج صاحب کی عدالت میں درخواست دے ۔ 

 سیشن جج صاحب ایسٹ کی عدالت میں درخواست داخل کر دی گئی اور میں ہر تاریخ پر انسپیکٹر فرید سے پوچھتا کہ کیا ہوا وہ جواب میں بولتا کہ سر  ملزم کے 10 وکیل آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہماری درخواست کی مخالفت کرتے ہیں اور  تاریخ پڑ جاتی ہے، میں نے انسپیکٹر فرید کو کہا اگلی تاریخ پر میں خود چلوںگا اور عدالت کو مطمئین کرنے کی کوشش کروں گا۔ 

 تاریخ پر اُس وقت کے سیشن جج صاحب جناب صادق حسین بھٹی صاحب کی روبرو میں پیش ہوا ملزم کے وکلا کا یہ دلیل تھا کہ جب کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ آ چُکی ہے تو ڈی این اے کروانے کی کیا ضرورت ہے ؟ 
میں نے جج کو بتایا کہ کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ کو مینج کیا گیا ہے۔

میں نے نیا سیل شدہ ٹائل جج صاحب کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ہم نے باتھ روم کے فرش سے سیمنٹ لگا ہوا خون آلود ٹائل  ایگزمینیشن کیلئے بھیجھا مگر واپسی میں جعل سازی کرکے کیس کے شواہد گُُم کرنے کیلئے ٹائل بدل دیا گیا، ایک خاتون اپنی عزت بچاتے ہوئے اپنے پانچ سالہ بچے کے سامنے قتل ہوگئی، ہم اس کیس کو لاوارث ان اٹینڈیڈ نہیں چھوڑ سکتے۔

 میں نے جج صاحب کو باتھ روم سے سیمنٹ لگا ہوا سیل شدہ دوسرا ٹائل اور ٹائل نکالنے کی تصاویر دکھائیں اور بتایا کہ ہم کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ پر اس لیئے بھی اعتبار نہیں  کر سکتے کہ اُس نے مارکیٹ سے نیا ٹائل لیکر سیل کرکے بھیج دیا ہے۔ 

ملزم کے وکلا نے کافی شور شرابہ کیا مگر شیشن جج صاحب نے ہماری درخواست الاو کر دی اور جیل سپرینٹنڈنٹ کو حکم کیا کہ جیل کے ڈاکٹر سے ملزم کے خون کا سیمپل لیکر سیل کرکے انسپیکٹر فرید کے حوالے کیا جائے۔ 
انسپیکٹر فرید مجھے گاڑی تک چھوڑنے آیا میں نے اُس کو کہا کہ آپ نے یہاں سے کہیں جانا نہیں ہے جج صاحب کی کورٹ سے آرڈر لے کر آج ہی جیل سے ملزم کے خون کا سیمپل لینا ہے، مجھے خدشہ تھا کہ آگر لیٹ ہوگیا تو مُلزم کے وکلا ہائکورٹ سے سیمپل لینے والے لیٹر کا آپریشن نہ  سسپینڈ کروالیں۔

 میں دفتر جانے کی بجائے سیدھا آئی جی جیل خانہ جات کے پاس چلا گیا اور اُن کو سارہ ماجرا بتا دیا انھوں نے میرے سامنے جیل سپرینٹنڈنٹ کو احکامات دے دیئے کہ شیشن جج صاحب کے آرڈر پر آج ہی عمل درآمد کرنا ہے اور جب تک انسپیکٹر فرید کورٹ کا آرڈر نہ لائے جیل کے ڈاکٹر کو موجود دستیاب  رکھنا ہے، 

 شام کو پانچ بجے انسپیکٹر فرید کا فون آیا کہ “ صاحب میں نے ملزم کا سیل شُدہ خون کا سیمپل جیل کے ڈاکٹر سے وصول کر لیا ہے” میں نے احتیاطن پوچھا کہ ڈاکٹر نے مُلزم یاسر سے خون کا سیمپل آپ کے سامنے لیا ہے؟ انسپکٹر فرید نے جواب دیا کہ “سر ٹائل بدلے جانے کے بعد میں محتاط ہوگیا ہوں، میں نے سیمپل اپنے سامنے کروایا ہے”۔  میں نے اُس کو کہا کہ کل صبح پہلی فُرصت میں آپ نے میرے دفتر آنا ہے اور ڈی این اے کیلئے این ایف ایس اے اسلام آباد والی لیب کو خط بنواکے ٹائل اور ملزم کے خون کا سیمپل ٹی سی ایس کرنا ہے، 

 دوسرے دن صبح ہی ٹائل اور خون کاسیمپل  این ایف ایس اے اسلام آباد ٹی سی ایس کردیا گیا ۔میں نے احتیاط کے طورپر این ایف ایس اے لیب اسلام آباد کو خط لکھ دیا کہ جیساکہ ملزم لوگ بہت چالاک، مالدار اور پیسے والے  ہیں پہلے بھی کیمیکل ایگزامینیر کراچی کے دفتر میں سیمپلز کی ٹمپرنگ ہوئی ہے اور کیس کے شواہد کو گم کردیا گیا ہے یہ بات آپ کے علم میں رہے اور ملزمان ایسی کوشش دوبارہ بھی کر سکتے ہیں۔ 

 کچھ دنوں بعد مجھے این ایف ایس اے لیب آسلام آباد سے ڈی این اے رپورٹ موصول ہوگئی جس میں ٹائل پر گرا ہوا خون ملزم یاسر  کے خون کا سمپل کا ڈی این اے میچ  ہوگیا تھا۔ میں نے خوشی سے انسپیکٹر فرید کو فون پر مبارکباد دی اور اس کو کہا کہ پہلی فرصت میں ڈی این اے رپورٹ ٹرائل کورٹ میں جمع کرادے۔

ڈی این اے رپورٹ آنے کے بعد یہ واضع ہوگیا تھا کہ کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے اور اُسی مُلزم کی مدد کرنے اور شواہد کی ٹمپرنگ کرنے کے الزام میں گرفتار کرنا تھا مگر وہ ٹائل میرے دفتر سے غائب ہو چکا تھا، میرا ارادا تھا کہ ایگزامینر کو حنا قتل کیس میں گرفتار کرکے 14 روزہ ریمانڈ میں صبح و شام چھترول کروائوں مگر مجھے افسوس ہے کہ میں کیمیکل ایگزامینر کو کچھ بھی نہ کرسکا۔ 

 ملزم کے وکلا نے کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ کی بنیاد پر مُلزم کی ضمانت شیشن کورٹ میں لگائی ہوئی تھی جو ڈی این اے رپورٹ آنے کے بعد شیشن جج صاحب نے خارج کر دی۔  کیس مضبوط تھا  میں نے انسپیکٹر فرید کو کہا کہ کیس کو جلدی چلواکر ثبوت رکارڈ کرا دے مگر آپ کو پتہ ہے کہ یہاں پر سب کچھ ممکن ہے۔

مُلزم کے وکلا نے ہائکورٹ میں ضمانت کی درخواست لگا دی اور جان بوجھ کر ایسے جج صاحب کے پاس لگائی جن کی شُہرت کچھ اچھی نہیں تھی۔ 

 اور کچھ دنوں کے بعد وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، جج صاحب نے مُلزم کی ضمانت لے لی اور  مجھے کچھ دوست وکلا سے معلوم ہوا کہ ضمانت 80 لاکھ کی ڈیل پر ہوئی ہے۔ 

 میں اپنی طبیعت پر کنٹرول نہ رکھ سکھا اور عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد رجسٹرار ہائیکورٹ سے ملنے چلا گیا اس وقت کا میں نے انتخاب اس لیئے کیا کہ وکلا اور سائل وغیرہ کورٹ سے چلے جاتے ہیں اور رش نہ ہونے کی برابر ہوتا ہے۔میں نے کیس کی ساری حقیقت اُن کو بتادی اور گزارش کی کہ مجھے چیف جسٹس صاحب سے ملنے کا ٹائم لیکر دیں۔

 رجسٹرار صاحب ایک اچھے اور ایماندار انسان تھے اور انھوں نے کہا آپ انتظار کریں میں ابھی آپ کو جسٹس صاحب سے ملواتا ہوں، اور وہ کچھ فائلیں اور ڈائری لیکر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد چیف جسٹس صاحب کا اردلی مجھے بُلانے آگیا۔ 

میں اوپن کورٹ میں چیف جسٹس صاحب کے سامنے کیئی بار  پیش ہو چُکا تھا اور وہ مجھ پر کافی اعتماد کرتے تھے۔ انھوں نے میری بات بڑی غور سے سُنی،میں نے ٹائل بدلنے، ایگزامینر کی رپورٹ،ٹائل چوری ہونے،جیل سے مُلزم کا خون کا سیمپل لینے اور ڈی این اے رپورٹ چیف جسٹس صاحب کو دکھائی وہ کرسی پر باربار پہلو بدل کر بے چین ہورہئے تھے اور مجھ سے سوال کیا کہ  کیا آپ کو یقین ہے کہ  ڈیل کے تحت ضمانت ہوئی ہے ؟ 

میں نے اُن کو کہا کہ سر آپ سینئر ترین جج ہیں آپ خود یا کسی اور جج صاحب سے ضمانت کی فائل کو چیک کروالیں آگر ضمانت میرٹ پر لی گئی ہے  تو میں غلط  ہوں آگر ضمانت لینے میں مُلزم کو فیور دیا گیا ہے تو کون مفت میں فیور دیتا ہے ؟ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ آگر ضمانت میں فیور دیا گیا ہے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ رجسٹرار صاحب بھی مُلاقات میں موجود تھے اور مجھے بُلاکر لے آنے والا آردلی چیمبر میں اندر موجود سب کچھ سُن رہا تھا۔ میں چیف جسٹس صاحب کو سیلوٹ کرکے چیمبر سے نکل آیا۔ 

 پتہ نہیں ضمانت لینے والے جج صاحب کو کیسے پتہ چل گیا ایک دن  آئی جی صاحب جو کچھ ماہ پہلے نئے لگے تھے نے مجھے اپنے دفتر بُلا لیا جسے میں نے دفتر میں اندر جاکر سیلوٹ کیا وہ بجاء جواب دینے کے چھڑی لیکر کھڑے ہوگئے اور سخت برہمی  سے کہا کہ تم میری اجازت کے بغیر چیف جسٹس صاحب سے کیوں ملنے گئے ؟ تم نے جج صاحب کی کیوں شکایت کی ؟ ڈسیپلین فورس ہے میں نے آئی جی صاحب کو کوئی وضاحت نہیں دی اسلئے کہ وہ سخت غصے میں تھے۔

 اُن کا کہنا تھا کہ تمھاری اس حرکت کی وجہ عدلیہ اور پولیس کے تعلقات خراب ہو جائیں گےاور تُم اُس جج صاحب کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے تم نے جج صاحب کی شکایت کرکے خود کو خراب کیا ہے، میں تمھاری اے سی آر خراب کردوں گا۔ وغیرہ وغیرہ !!!! اُن کی بات ختم ہونے پر بس اپنی غلطی مان کر سرمجھ سے غلظی ہوگئی، معافی چاہتا ہوں، کہا معذرت کرکے سیلوٹ کیا اور دفتر سے باہر نکل آیا۔

میں نے اپنے ضمیر کے مُطابق قاتل اور کرمنلز کا ساتھ دینے والے جج کی نشاندہی کر کے کچھ غلط نہیں کیا تھا، میرے نزدیک جج صاحب اور کیمیکل ایگزامینر کا جُرم ناقابل معافی ہے،  جو لوگ ایک جج کو خریدنے کی قوت رکھتے تھے انھون نے غریب موٹر سائیکل پر گھومنے والے انسپیکٹر  فرید پر کتنا زور نہیں لگایا ہوگا ؟؟
 آگر کبھی موقعہ ملا تو آپ کو بتاؤں گا کہ بلدیہ کیس کس طرح ایک انسپیکٹر نے بیچ دیا اور آئی جی تک کسی کی نہ سُنی ! شاہ رُخ جتوئی کیس میں کس طرح ایک انسپیکٹر اپنی من مانی کرنے لگا اور آئی جی کو مجبور،لاچار  اور بے بس کردیا ؟اور کس طرح بے گناہ لوگوں  کو پھانسی کے پھندے تک پہنچایا گیا ؟

 یہ سارا کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آگر انسپیکٹر فرید خوف خدا نہ رکھتا اور کیس کا سودا کر لیتا  تو میں اُس کو کیا کر لیتا ؟؟

کچھ دنوں میں میرا تبادلہ اینٹی کارلفٹنگ سیل میں ایس ایس پی ثناالللہ عباسی  موجودہ آئی جی  گلگت بلتستان کی جگہ کردیا گیا۔ 

 ان ہی  دنوں اخبارات میں پڑھا کہ ضمانت لینے والے جج صاحب کو کنفرم نہیں کیا گیا اور ہائکورٹ سے فارغ کردیا گیا ہے، میں اپنے حصے کا کام کر چُکا تھا

اُسی دن آئی جی  صاحب نے مجھے بُلوالیا، جیسے ہی میں نے ان کو سیلوٹ کیا انھون نے اُٹھ کر گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے  ہاتھ ملایا  اور آردلی کو اپنے لیئے اور میرے لیئے کافی بنانے کو کہا۔ کرسی پر بیٹھتے ہی کہا کہ نیاز آپ نے آج کا اخبار دیکھا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ سر جس خبر کے مُتعلق آپ کہ رہے ہیں وہ میں دیکھ چُکا ہوں۔
آئی جی صاحب نے سوال کیا کہ آخر  آپ کے اور جج صاحب کے درمیاں کیا پرابلم تھی ؟ میں نے آئی جی صاحب کو کہا کہ سر کوئی ذاتی یا میری انا پہلے کا مسئلہ نہیں تھا” میں نے اُن کو حنا کیس کے متعلق سارا کچھ بتایا آئی جی صاحب نئے پوسٹ ہوئے تھے اور کبھی نہ انھوں نے پوچھا اور نہ میں نے بتایا۔ میری پوری بات سننے کے بعد وہ شرمندگی کی وجہ سے مجھ سے آنکھیں نہیں ملا پا رہے تھے، ( میری عادت ہے کہ ہاتھ ملاتے وقت اور گفتگو کے دوران مخاطب کی آنکھوں میں دیکھتا رہتا ہوں) کافی ختم ہوتے ہی میں جانے کیلئے اُٹھ کڑا ہوا آئی جی صاحب نے ایک ہاتھ سے مجھے رُکنے کا اشارا کیا اور دوسرے ہاتھ سے انٹر کام پر ڈی آئی جی ۔ٹی اینڈ ٹی کو کہا کہ کھوسہ صاحب آپ کے پاس آرہے ہیں ان کو فیملی کیلئے نئے فلیٹ  میں سے ایک بلیک کلر  کی کرولا کار دے دیں، انھوں نے اُٹھ کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا آپ  ڈی آئی جی سے کار لیتے جائیں۔ میں نے خاموشی سے اُن کو سیلوٹ کیا اور باہر نکل آیا۔میں نے محسوس کیا کہ آئی جی صاحب اپنے سابقہ رویہ پر ندامت محسوس کر رہے ہیں۔ 

 میں ڈی آئی جی۔ٹی اینڈ ٹی کے پاس نہیں گیا اور اپنے دفتر چلا گیا۔ شام کو ڈی آئی جی۔ٹی اینڈ ٹی کا فون آیا کہ نیاز آپ کار لینے نہیں آئے میں نے آپ کے دفتر کار بھجوادی ہے ۔ 

میری خودداری, عزت نفص اور ضمیر آئی جی صاحب کی تلافی کے طور دی ہوئی کار رکھنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی ویسے تو سینئر کو اپنے ماتحت کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا حق ہے مگر اُس دن آئی جی صاحب کا چھڑیاں لے کر کھڑا ہوجانا مجھے حد درجہ بُرا لگا تھا اور میں اپنی بیعزتی سمجھ رہا تھا۔ 

دوسرے دن میں نے شُکریہ کے ایک خط کے ساتھ کار ڈی آئی جی۔ٹی اینڈ ٹی کو واپس بھیج دی اور لکھا کہ میری فیملی کے پاس پرائیویٹ کار ہے اس لیئے میں یہ کار نہیں رکھ سکتا۔ 
کار واپس کرکے آئی صاحب کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ آپ ایک چھڑی سے سب کو چلا نہیں سکتے !! اور سب کو ایک طرح کا نہ سمجھیں۔

ملزم ضمانت لیتے ہی امریکا فرار ہوگیا ،لڑکی کے والدین نے سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائرکر دی کہ ملزم کو گرفتار کیا جائے،  انسپیکٹر فرید کا بھی تبادلہ کردیا گیا تھا۔

 پاکستان کا امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس سے مُلزم کو واپس لایا جا سکے، انٹر پول کو ریڈ وارنٹ ارسال کرکے ملزم کی گرفتاری ممکن کی جا سکتی ہے مگر اس کیلئے جن آفسران کی وہاں تعناتی ہے وہی سب کچھ کر سکتے ہیں اس طرح بیچاری حنا کا کیس اپنی موت آپ مر گیا۔ اور ایسے لاکھوں کیسز کے فائلوں میں  اس کیس کی فائل بھی پتہ نہیں کہاں گم ہوگئی ہے ؟

اگر آج بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں، سندھ ہائکورٹ یا سپریم کورٹ تھوڑی کوشش کریں تو ریڈ وارنٹ نکل سکتا ہے اور ملزم یاسر کو پاکستان لایا جاسکتا ہے۔

بشکریہ: عثمان علی
یہاں راقم سارے لکھتے ہیں
                           انصاف و قوانین یہاں پر بکتے ہیں
یہاں پر ہے جعلی دوائوں کا کاروبار بہت
                               اس دیس میں گُردے بکتے ہیں     

                  اے چاند یہاں نہ نکلا کر


ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close