پارچین کے اس علاقے میں متنازعہ جوہری پروگرام کی تنصیبات میں دھماکے سے لے کر اسرائیل کے فضائی حملے تک کی افواہیں ہیں۔

تہران کے رہائشیوں کی جانب سے جاری کردہ زیادہ تر تصاویر میں پہاڑوں کے پیچھے بہت زیادہ آگ دکھائی دی جو خضر کے خطے میں ایران کی سب سے خفیہ فوجی تنصیبات میں سے ایک تھی۔

جیسے ہی موسم صاف ہوا اور سیٹلائٹ کی تصاویر جاری کی گئیں حادثے کی جہت اور شدت کافی حد تک واضح ہو گئی۔

دھماکے کے کچھ گھنٹوں بعد ایران کے سرکاری میڈیا نے اس واقعے کو پارچین میں ایک فوجی مرکز کے قریب گیس ٹینک کے دھماکے سے منسوب کر دیا۔تاہم دستیاب فوٹیج میں پارچن نہیں وہاں سے 30 کلومیٹر دور کے علاقے میں آگ دکھائی دے رہی ہے۔

طلوع آفتاب کے بعد سرکاری سنٹرل نیوز ایجنسی کے ایک رپورٹر کو آگ لگنے والے علاقے کی جانب روانہ کیا گیا تاکہ وہ اس بات کی اطلاع دیں کہ یہ دھماکہ 'گیس ٹینک دھماکا' تھا۔

سنٹرل نیوز ایجنسی کی جاری کردہ ویڈیو رپورٹ میں اس واقعے کی مزید تفصیلات سامنے آئیں، اور اس کے بعد تین گیس ٹینک دکھائے گئے جن کی گنجائش پانچ ہزار لیٹر تھی۔

ایرانی وزارت دفاع اور مسلح افواج کے ترجمان نے ایک ویڈیو انٹرویو میں دعوی کیا ہے کہ نلکوں اور گیس کے دباؤ میں کمی کی وجہ سے آبی ذخائر تباہی ہوئے تھے۔

مذکورہ کیمرہ مین نے پھٹے ہوئے اور جلنے والے ٹینکوں کو دکھایا جس میں اس علاقے کے قریب جلی ہوئی چراگاہیں بھی نظر آتی ہیں اور ان ٹینکوں کے قریب ایرانی فوجی بھی بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے دیکھے جا سکتے ہیں۔

دوسری جانب سینٹینل ٹو سیٹلائٹ کی کھینچی گئی ایک تصویر میں اسی دن بتایا گیا کہ ایران کے سرکاری میڈیا دعووں کے برعکس حادثے کا مقام پارچین نہیں تھا بلکہ یہ علاقہ کھوجیر میں ایران کی میزائل صنعت کے مرکز میں تھا۔یہاں ایرانی مسلح افواج کے زیر انتظام مائع ایندھن والے بیلسٹک میزائل تیار ہوتے ہیں۔

دھماکے سے چند منٹ پہلے شیراز میں 230 کلو واٹ پاور اسٹیشن کے ٹرانسفارمروں میں اور بجلی کے کئی دوسرے ڈسٹری بیوشن سٹیشنوں میں آگ بھی لگی۔اس کے نتیجے میں شیراز کے مختلف علاقوں کے 20 سے 30 فیصد علاقے میں بجلی بند ہوگئی۔

گمان کیا جا رہا ہے کہ یہ سائبر حملہ تھا جو اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کی فوج کے 8200 یونٹ سے منسوب کیا گیا تھا۔پچھلے سال وینزویلا کے بجلی نیٹ ورک میں امریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ہیکروں نے بھی اسی طرح کے حملے کیے ہیں جس سے نیکولس مادورو کی حکومت کے خلاف عوامی اشتعال پھیل گیا۔

لیکن ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق یہ آگ گیس ٹینکروں کی وجہ سے لگی۔صدائے آزادی نامی چینل کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں جلائے جانے والے اور پھٹنے والے ٹینکوں کے آگے ایک الیکٹرانک آلہ دکھایا گیا ہے جو ممکنہ طور پر گیس کے ٹینکوں سے جڑا ہوا ہے۔

اگر پروپین گیس ٹینکوں کے قریب گرمی اور آگ میں اضافہ اس دھماکے کی وجہ ہے تو، درجہ حرارت میں یہ اضافہ اور اس کے بعد آگ لگنا، سائبر حملے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ایرانی حکومت اور میڈیا پر ایرانی عوام کے عدم اعتماد نے اس واقعے کے بارے میں سائبر سپیس میں افواہوں کو ہوا دی ہے۔

F-35I جنگجو طیاروں کی محدود حد اور ایران کے پڑوسی ممالک خصوصا عراق میں ہیلی کاپٹر تعینات کرنے اور دفاعی طیاروں کی تعیناتی کرنے کی طاقت کی عدم صلاحیت کی وجہ سے، ایران کی فضائی حدود میں ایف 35 طیارے کو ایندھن فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔ پڑوسی ممالک میں ہوا سے میزائلوں کے خطرہ کے علاوہ سیاسی امور میں دخل اندازی کا بھی خطرہ ہے۔ اگر اس حادثے کو جان بوجھ کر کیا جانے والے کوئی واقعہ قرار دیا جائے تو یہ کوئی سائبر حملہ ہو سکتا ہے۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close