پاکستان میں موبائل فون کا دور کوئی زیادہ پرانا نہیں غالبا نوے کی دہائی میں یہاں پر سیلولر فون کا آغاز ہوا،اول لوگوں کے پاس پرانے بھاری بھر کم اور تھکے ہوئے سیٹ ہوتے تھے،ریٹ بھی بہت زیادہ ہوتا تھا جو عوامی استطاعت سے باہر تھا جس کی وجہ سے یہ سلسلہ شروع میں صرف خواص تک محدود تھا پھر پرویز مشرف کے مشہور زمانہ یس آر نو میں جب ہم امریکہ کے اتحا دی بنے تو ملک میں ڈالرز کی ریل پیل شروع ہوئی ساتھ ہی موبائل سیٹ کی درآمد کا کاروبار بھی چمک اٹھا نت نئے اور سستے سیٹ مارکیٹ میں آنے لگے کچھ مقامی لوگوں نے بھی انویسٹمنٹ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک بہت بڑی انڈسٹری بن گئی،موبائل کی دھڑا دھڑ فروخت اور ستعمال نے دیگر ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کو بھی للچایا اور انہوں نے بھی یہاں اپنی سروسز کی فراہمی کا اعلان کر دیا،مقابلے کی فضا بنی تو ریٹ سستا کرنا پڑے اور پھر اس حد تک آگئے کہ یہ سہولت جو کبھی چند خاص لوگوں تک محدود تھی نہ صرف ہر شخص تک پہنچ گئی بلکہ اب ایک فیملی کے چھ افراد کے پاس اپنا الگ الگ نمبر موجود ہے،بعد میں پتہ چلا کہ پاکستان دنیا کے چھ سب سے زیادہ موبائل فون استعمال کرنے والے ملکوں میں شامل ہے تو کمپنیوں نے مختلف پیکجز اور حیلے بہانوں سے لوٹ مار شروع کر دی اور موجودہ صورتحال یہ ہے کہ جولائی 2018 میں پاکستان میں موبائل فون یوزرز کی تعداد 151ملین تھی یوں اگر ہر صارف روزانہ صرف دس روپے کا بیلنس استعمال کرے تو مجموعی رقم روزانہ پندرہ ارب روپے سے بھی زیادہ بنتی ہے،ماہانہ اور سالانہ کے لیے شاید کیلکولیٹر کے ہندسے جواب دے جائیں،
آگے چلیں اسی طرح شوکت عزیز نے بنکوں کو ایک نیا طریقہ سمجھایا کہ نقصان سے بچنے اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے کا سب سے آسان حل گاہکوں کو نئی اور چمچماتی گاڑیاں دکھاؤ او ر زیادہ مارک اپ مگر نہایت آسان شرائط پر ان کے حوالے کرو،نتیجتاً لوگوں نے دھڑا دھڑ ادھر انویسٹمنٹ شروع کر دی،اور تقریبا ہر متمول شخص نے بلا سوچے سمجھے چھوٹ بڑی گاڑی لے لی،جب قسطوں کی باری آئی تو کچھ پکڑے گئے کچھ نے بیچ دیں اور کچھ نے بطور ٹیکسی استعمال کرنا شروع کردیں،پھر مشرف صاحب بالاخر چلے گئے اور پی پی پی آ گئی ان کے دور کو لوٹ مار سے تشبیح دی جاتی ہے یقیناً بہت کچھ سچ بھی ہو گا مگر بہت سے اچھے کام بھی ان کا کریڈٹ ہیں،بے نظیر انکم اسپپورٹ فنڈ سے ملک کے لاکھوں غریب لوگوں کا چولہا جل رہاہے اس کے علاوہ انہوں نے پاک فوج کے سپہ سالا سے رابطہ و مشاورت کر کے آرمی کے لوئر رینک کے اہلکاروں کی   تنخواہیں دوگنا کر دیں اسی طرح دیگر محکموں کے اہلکاروں کی تنخواہ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا،لوگوں کی زندگی نسبتاً آسان ہو گئی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام،سی پیک اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر کا آغاز اور پاک ایران گیس پائپ لائن،سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں معقول اضافہ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کے اہم کارنامے ہیں، پھر میاں براران آگئے ان کی طبیعت میں سڑک سازی کا عنصر نمایاں ہے سی پیک کو انا کا مسئلہ بنا کر میاں صاحب نے ہنگامی بنیادوں پر اس کا کام شروع کر دیا، اس کے علاوہ ملتان اور مانسہرہ موٹرو یز کا کام بھی اسپیڈ پکڑ گیادنیا کو سی پیک کا پراجیکٹ کسی صورت بھی وارا نہیں تھا دوسری طرف ڈالر نیچے آنا شروع ہوا اور 114سے واپس 88روپے پر آ گیا نہ صرف یہ بلکہ پٹرول کی قیمت کو بھی ریورس گئیر لگا کر میاں صاحب 113سے 64پر لے آئے،جن لوگوں نے لیز پر گاڑیاں لے رکھی تھیں انہوں نے سکھ کا سانس لیا بلکہ دیکھتے دیکھتے ہر شخص نے اپنی گاڑی لے لی کیوں کہ پٹرول کی قیمت کی وجہ سے چار چھ لوگوں کے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کے کراے سے اپنی گاڑی سستی پڑتی تھی،لوگ سی این جی کو بھول گئے اور یہ سیکٹر جتنی تیزی سے سطح پر ابھر اتنی ہی تیزی سے غرق بھی ہو گیا،لوگ نسبتاً بہتر اور خوشحال زندگی گذارے لگے.
 خطے میں سی پیک کی گونج سنائی دینے لگی اور اس گیم چینجرمنصوبے کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا،دنیا کو یہ منصوبہ اور خصوصا امریکہ بہادر کو چین کے ساتھ ایسی کمٹمنٹ کسی صورت وارا نہ تھی اور پھر جیسا وہ ہر ملک کے ساتھ کرتے ہیں ادھر بھی اچانک پانامہ ہو گیا یہ پانامہ بھی وکی لیکس کی طرح صرف کسی کا پاجامہ چرانے کی خاطر تھا،اب نہ کسی کو لیکس یاد ہیں نہ پاناما،جب پانامہ اپنے پورے جوبن پر تھا تو اس وقت میں نے جنرل عبدالمجید ملک سے انٹرویو کا وقت لیا اللہ مرحوم جنرل کو غریق رحمت کرے بیماری کے باوجود مجھے ملاقات کے لیے وقت دے دیا ہم جب ان کے گھر پہنچے تو وہ ٹی وی لاؤنج میں آرام دہ کرسی پر تشریف فرما تھے بولے وقت کم ہے جلدی ختم کر لیں جو پوچھنا ہے پوچھیں میرے لیے زیادہ دیر بیٹھنا ممکن نہیں میں نے جلد از جلد جو سوالات ذہن میں تھے پوچھنا شروع کیے ساتھ ہی پانامہ کا کا پوچھا کہ جناب یہ تو لوٹ کر کھا گئے سارے پیسے تو ہمارے باہر لے گئے یہ ظالم حکمران،جنرل صاحب نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور بولے کہ یہ پانامہ وانامہ کچھ نہیں یہ پاکستان کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہے،ہمارے دشمن نہیں چاہتے کہ ملک آگے بڑھے یہاں ترقی و خوشحالی آئے،ہمارے ہاں لوگوں نے آف شور کمپنیوں کا نام اب سنا ہے مگر ساری دنیا کے امیر اور کاروباری لوگ نہ صر ف ان کمپنیوں میں اپنا پیسہ انویسٹ کرتے ہیں بلکہ اپنی کمپنیاں بھی بناتے ہیں،کیوں کہ انہیں برے وقت کا ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے اگر کوئی شخص اپنی جائز کمائی کہیں انویسٹ کرتا ہے تو اس میں شور مچانے کی کیا بات ہے،چار سو لوگوں  کے نام ہیں ا س میں جن میں جہانگیر ترین اور عمران خان بھی شامل ہیں مگر شور صرف نواز شریف کے نام پر مچایا جا رہا ہے جنرل صاحب نے کہا کہ دیکھ لیجیے گا پانامہ کے نام پر کسی بھی صورت نواز شریف تو کیا کسی کو بھی سزا نہیں ہو سکتی،جنرل صاحب چلے گئے مگر ان کی بات سچ ثابت ہوئی کہ سزا پانامہ پر نہیں اقامہ پر ہوئی،اس دن جنرل صاحب نے بتایا کہ پانامہ میں صرف پاکستان یا پا کستانی ملوث نہیں ہمسایہ ملک انڈیا کے ایک ایک بزنس مین کی پاکستانی بجٹ سے زیادہ انویسٹمنٹ دنیا کے بنکوں میں جمع ہے،پانامہ اور آف شور کمپنیاں ہر جگہ موجود ہیں اور یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہاں اگر پیسہ عوام کا ہے اور کسی کے پاس ثبوت ہے تو یہاں پر عدالتیں اور ایک پورا نظام موجود ہے مگر اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ پاکستان کے خلاف بہت گھناؤنی سازش ہے اور یہ جو ریل پیل اور ترقی و خوشحالی کی جانب مارا ملک گامزن ہے یہ سب کچھ ڈی ریل ہو جائے گا، صرف دس پندرہ سال بعد عام افراد کی زندگی مشکل بلکہ مشکل ترین بنا دی جائے گی،لوگ گوادر اور سی پیک کو بھول جائیں گے رہی ایران پاکستان گیس پائپ لائن تو اس پر فاتحہ پڑھ لیں یہ کبھی بھی ممکن نہیں ہو گا نہ امریکہ ہمیں یہ کرنے دیتا ہے، میں نے انٹریو مکمل کیا اور نواے وقت کو بھج دیا جو اگلے دن نمایان طور پر شاع بھی ہو گیا جنرل صاحب چلے گئے مگر ان کی کہی ہوئی باتوں کو ابھی پانچ سال بھی نہیں ہوئے کہ ان کا کہا گیا ایک ایک لفظ حرف بحرف صحیح ثابت ہونا شروع ہو گیا،اچھے بھلے ملکی حالات کا بیڑہ غرق کر دیا گیا عوام تو عوام حکمرانوں کو بھی اب تک سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اچانک یہ سب ہوا کیا،خط غربت سے نیچے بھی کوئی خط اگر ہے تو ہم اس سے بھی نیچے کی طرف رواں دواں ہیں پاتال کا سفر ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا،ہمیں عجیب کام پر لگا دیا گیا کھا گئے کھا گئے اور چور چور کی وہ گردان شروع ہوئی کہ ایک وقت میں ساری قوم نے آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا کسی نے نہیں پوچھا جناب وہ ڈالر ایک سو چار پر چھوڑ کر گئے تھے آج 165پر پہنچ گیا وہ پٹرول 88پر چھوڑ کر گئے تھے آج 114پر ہے بجلی گیس اور روزمرہ اشیا ء کی قیمتوں نے ملک کے باسیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی وہ چور تھے اب تو فرشتے ہیں،مگر آدھے سے زیادہ فرشتے پرویز مشرف دور کے کچھ آصف زرداری کے اور جو چند کلیدی عہدوں پر براجمان ہیں وہ ورلڈبنک  اورآئی ایم ایف کے،سارا زور صرف شور مچانے پر کسی کو نہیں چھوڑنا 
اب تو لگتا ہے اس کسی میں عوام بھی شامل ہیں کہ کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا،وگ جب بلوں کی دہائی دیتے ہیں آگے سے شہباز شریف کی پرانی تقریر سنوا دی جاتی ہے،جب مہنگائی کا رونا روئیں تو مریم بلاول کی تصویر ایڈٹ کر کے کہا جاتا ہے یہ دیکھو،کہا جائے مر گئے تو جواب ملتا ہے یہ وہی مولانا فضل الرحمان ہیں جو فیض آباد دھرنے میں نہیں آئے تھے یاد ہے نہ پاکستانیوآج اپنے مفاد کے لیے اکٹھے ہو گئے ہیں،ڈالر کا پوچھیں تو جواب آتا ہے دیکھو نواز اور زرداری بھائی بھائی بن گئے،ہسپتالوں میں دوائی کا رونا رویا جائے تو میاں نواز شریف کے بچوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر لگا کر پوچھا جاتا ہے یہ احتجاج کے لیے کیوں نہیں آتے،مطلب جو بھی آپ سوال کریں جواب چنا ہی آئے گا، کسی کو شوق ہے تو کر کے دیکھ لے ذرا سی لاجک یا دلیل سے بات کریں تو آگے سے مغلظات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے،نواز زرداری بھائی بھائی والوں کو جب پرویز الہی عمران خان یا شیخ رشید اور بابر اعوان کی مثال دی جائے تو بڑے طریقے سے بات دوبارہ گھوم پھر کر کھا گئے کھا گئے پر آ جاتی ہے، او بھائی کھا گئے جب کوئی لکھت پڑھت اور رسید یا کھاتا مانگا جائے تو جواب ملتا ہے اس کے لیے کسی رسید کی کیا ضرورت ہے یہ تو ہر کسی کو بھی پتہ ہے کہ انہی لوگوں نے پاکستان کو لوٹا ہے مگر عدالت یہ سب کو پتہ ہے والی دلیل نہیں مانتی،چلیں جس نے بھی لوٹا آپ کے پاس اب حکومت ہے اختیار ہے واپس لیں سب سے ایک ایک پائی،مگر اب تک صرف باتوں اور ڈائیلاگز کی وجہ سے آپ بہت تیزی س اپنی کریڈیبلٹی کھوتے جا رہے ہیں،اوپر سے نہ کنٹرول ہونے والی اور دن بدن بڑھتی مہنگائی سونے پر سہاگہ کا کام کرتی جا رہی ہے،آپ جس گند کو صاف کرنے آئے تھے آدھے سے زیادہ وہ آپ نے اپنی جھولی میں ڈال رکھا ہے،آپ نے الیکٹیبلز ملا کر حکومت تو حاصل کر لی مگر عزت سادات جاتی نظر آ رہی ہے،یہ کوئی قابلیت نہیں کہ ایک انسان ساری زندگی نیک نامی کمائے اور آخری عمر میں صرف چند روز کے چسکے کے لیے عمر بھر کی کمائی داؤ پر لگا دے،جس دن آپ نے پہلا کرپٹ اور لوٹا اپنی پارٹی میں یہ کہہ کر شامل کیا تھا کہ کیا کروں ووٹ بھی تو انہی کو ملتے ہیں اسی دن آپ اپنے قول و قرار سے پھر گئے تھے اور قول و قرار سے پھرنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے جو آُ کے مخالفین کا آج ہو رہا ہے اور کل یہ ہی آپ کا بھی ہونے والا ہے،خدا کے لیے کچھ خدا کا خوف کریں اور لوگوں کو جینے کا حق دیں،ہر دوسر ے ماہ منی بجٹ اور ہر دوسرے دن قیمتیں بڑھتی اور بڑھائی جا رہی ہیں، ہسپتالوں میں دوائی تو دور کی بات اب تو پینے کا ٹھنڈا صاف پانی بھی دستیاب نہیں،جو ٹیسٹ فری یا چند روپوں میں ہوتا تھا اب ہزاروں روپے میں بھی نہیں ہو رہا بلکہ سیدھا سادھا کام یہ کیا گیا کہ ٹیسٹ ہی بند کر دیے گئے،بجلی گیس کے بلز اور روزمرہ اشیا ئے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں،کیا یہ وہ تبدیلی ہے جس کا قوم سے وعدہ کیا گیا تھا کیا لوگوں کو اس بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ کیوں دیاتھا،بہت ہی چھوٹی سی بات کوئی جا کے بڑے خان صاحب کے کان میں بتا دے کہ جناب کوئی بھی ملک اس وقت تک مظبوط معیشت کا حامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہو جاتا دنیا اعتبار نہیں کرتی اور یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک آپ اپوزیشن سے مل کر معاملات آگے نہیں بڑھاتے کیوں کہ وہ بھی انہی عوام سے ووٹ لیکر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں جن سے آپ لیکر اس اسمبلی اور ایوان میں پہنچے ہیں،یاد رکھیں سلطان راہی کی بڑھکیں صرف فلموں میں اچھی لگتی ہیں عملی زندگی میں عاجزی اور انکساری سے آگے بڑھا جا سکتا ہے،غرور تکبر اور اکڑ صرف رب العزت کی ذات کو روا ہے،اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے، یاد رکھیں کہ ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے کچھ کر گزریں ورنہ جس دن یہ بھوکے پیٹ لوگ اپنی جھونپڑیوں سے باہر نکل آے اس دن نہ کوئی بنی گالہ بچے گا نہ نت ہاؤس،نہ زرداری ہاؤس اور نہ ہی راے ونڈ کے محلات سطح زمین پر نظر آئیں گے،،اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close