ڈاکٹر زاہد عباس چوہدری 


این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کو جمعرات کے روز سماعت کے بعد الیکشن کمیشن پاکستان نے کالعدم  قرار دیتے ہوئے پورے حلقے میں نیا الیکشن کروانے کا حکم دیا،  نئے الیکشن کی تاریخ الیکشن کمیشن کی طرف سے 18 مارچ مقرر کی گئی. اس طرح 18 مارچ کو ایک مرتبہ پھر این اے 75 میں موجودہ حکومتی پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے درمیان تاریخی سیاسی میچ پڑنے والا ہے۔فیصلے سے قبل اس حلقے کا نتیجہ تا فیصلہ روک دیا گیا تھا کیونکہ مسلم لیگ ن کی طرف سے جو الزامات لگائے گئےحالات ان کی موافقت میں گواہی دے رہے تھے, این اے 75 ڈسکہ کا الیکشن کالعدم ہونے کی بڑی وجوہات میں دو افراد کے قتل کے علاوہ 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کی بر وقت عدم دستیابی اور دیگر کئی وجوہات جن سے شکوک و شبہات  جنم لیتے تھے شامل ہیں۔اس دھاندلی کے نتیجے میں انتظامیہ کی نا اہلی پر قصور وار گردانتے ہوئے  ضلع ڈسکہ کے انتظامی افسران ڈپٹی کمشنر,  ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر،  اسٹنٹ کمشنر ڈسکہ اور ایس ڈی پی او ڈسکہ کو معطل کرنے، کمشنر اور آر پی او کے خلاف کاروائی کرنے اور آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کو طلب کر کے اپنے مؤقف کی وضاحت کرنے کا حکم بھی دیا گیا. 


مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے اس فیصلے کو سراہا گیا اور مزید براں یہ بھی کہا گیا کہ ووٹ چوری اور دھاندلی ثابت ہو چکی ہے۔مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اس سازش کے پیچھے کون کون ہیں دوبارہ الیکشن سے زیادہ اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے. اور وزیر اعلی' پنجاب کے استعفی' کا مطالبہ بھی سامنے آیا. 


حکومتی وزراء اور ترجمانوں کی طرف سے بھی فیصلے کہ متعلق کہا گیا کہ اس فیصلے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ادارے آزادی سے اپنا کام کر رہے ہیں لیکن فیصلے کے خلاف تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد کابینہ اور قانونی ماہرین کی مشاورت سے اپیل کرنے کا حق پاکستان تحریک انصاف محفوظ رکھتی ہے اور اپیل کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا. 


پاکستان میں ماضی میں پاکستان کے اوائل کے کچھ عرصہ کے بعد سے دھاندلی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے ہر الیکشن کے بعد شکست خوردہ جماعت کی طرف سے اسٹیلشمنٹ پر دھاندلی کروانے کا الزام لگتا رہا اور ہر نئی آنے والی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار کہا جاتا رہا. ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دھاندلی کا رونا رونے والے ہمیشہ ہار کی وجہ سے یہ الزامات لگاتے رہے اس میں یقینی طور پر کچھ نہ کچھ حقائق بھی ضرور ہونگے لیکن جس طرح گزشہ عام انتخابات میں ملک کی دو بڑی جماعتوں کے ساتھ ہوا اس سے بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات نے جنم لیا اور نتائج کے سامنے آتے ہی دھاندلی کا شور مچ گیا۔ اکیلے بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کرنے والے عمران خان نے مینار پاکستان کے جلسے اور اسلام آباد کے دھرنے کے بعد جس طرح کامیابی حاصل کی اس نے اہل فکر و دانش کے لیے سوچ کی نئی راہیں کھول دیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت معرض وجود میں آ گئی تو اپوزیشن نے آہستہ آہستہ اپنی بھڑاس نکالنی شروع کر دی اور یہ بھڑاس نواز شریف کے مخصوص بیانیے ووٹ کو عزت دو تک پہنچ گئی۔ بعد ازاں اپوزیشن کے خلاف نیب کے کیس بننے شروع ہوئے اور اپوزیشن کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی نواز شریف کے ملک سے جانے کے بعد پی ڈی ایم معرض وجود میں آئی تو نواز شریف کے بیانیے سے بڑھ کر ان کی تقاریر میں کچھ ایسے نام بھی آنے لگے  جو کہ نہ آتے تو بہتر تھا لیکن اپنی جگہ اپوزیشن چونکہ گزشتہ عام الیکشن اور نیب کیسز کو اپنے ساتھ زیادتی سمجھتی تھی اس لیے پی ڈی کی مشترکہ جدوجہد میں کچھ تیزی آئی، بعض معاملات میں پی ڈی ایم وقتی اختلافات کا شکار بھی ہوئی لیکن مولانا فضل الرحمان نے معاملات کو سنبھال لیا کہ اسی دوران ضمنی الیکشن کا وقت آن پہنچا,  پی ٹی آئی اپنے بیچے ہوئے خوابوں کی تعبیر عوام تک پہنچاتے میں نہ صرف بری طرح سے ناکام رہی بلکہ مہنگائی، غربت و افلاس اور بے روزگاری نے عوام کا جینا محال کر دیا۔ اس عرصے کے دوران عوام کی اکثریت اس بات کو سمجھ چکی تھی کہ ان تلوں میں تیل نہیں جبکہ اسٹیبلشمٹ کی طرف سے بھی سیاست سے دوری کا دانشمندانہ فیصلہ ہوا۔


پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے گزشہ حکومتی عرصے کے دوران اپوزیشن کو دن میں تارے دکھانے اور کیسوں میں پھنسانے میں ہی لگی رہی اور عوام کو ان کی توقعات کے مطابق کوئی ریلیف نہ دے سکی جس سے عوام میں شدید پریشانی اور مایوسی دیکھنے میں آئی اور رہی سہی کسر کورونا نے نکال دی۔ ضمنی الیکشن میں وزیر اعظم کو سب اچھا دکھایا گیا تھا لیکن الیکشن کے روز جب اصل حالات سامنے آنے شروع ہوئے اور ڈسکہ کے الیکشن پہ انا ٹھن بیٹھی تو حکومتی مشینری کو حرکت میں لایا گیا۔ تبدیلی سرکار کو یقین تھا کہ 2018 کے عام انتخابات کی طرح اب بھی اپوزیشن چند روز دھاندلی کا رونا رو کے خاموشی اختیار کر لے گی ہونا کیا ہے کچھ بھی نہیں.

لیکن حالات بدل چکے تھے پی ٹی آئی خود تو کوئی تبدیلی نہ لا سکی دیگر بہت سی جگہوں پر بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا اور یہی بات سمجھنے میں وزیر اعظم عمران خان سے غلطی ہوئی جب الیکشن کمیشن پاکستان کو ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے شکایات موصول ہوئیں تو انہوں نے نتیجہ روک دیا اور مزید سماعت کے بعد تاریخ ساز فیصلہ سنا دیا۔آمدہ  ضمنی  الیکشن میں این اے 75 ڈسکہ 18 مارچ کو جو بھی جماعت جیتے لیکن الیکشن کمیشن کے حالیے فیصلے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی۔ اس لیے خان صاحب سے گذارش ہے کہ

 "پیر نابالغ" بنے رہنے کی مزید ضد نہ کریں کہ اب آپ کی رنگین تقریریں بھی نوشتہ دیوار بدل نہیں سکتیں! 

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close