الیکشن کی تیاریاں ۔۔ اور وعدوں کا لولی پاپ
بڑھتے ٹریفک حادثات۔ جاگنے کا وقت گزر نہ جائے


الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کیلئے کمیٹیوں کے قیام کیساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں کی اپ ڈیٹنگ کیلئے تاریخوں کا اعلان کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی ریونیو حدود میں تبدیلیوں پر پابندی بھی عائد کردی ہے۔ یعنی اب کوئی نئی یونین کونسل ، نئی تحصیل اور نیا ضلع نہیں بن سکے گا ۔یوں لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے موجودہ دور میں ضلع تلہ گنگ کا وعدہ ایفا نہیں ہوگا ، بلکہ جو لولی پاپ دیا گیا تھا شاید اگلے الیکشن میں اسے استعمال کیا جائیگا ، نہ ضلع تلہ گنگ کا وعدہ ایفا ہوا نہ بلکسر تا ڈیرہ اسماعیل موٹروے کی تعمیر کا اعلان ہوا اور نہ ہی یونیورسٹی اورٹیکنیکل کالج بنا، 2013مئی کے وعدے وعدے ہی رہے ، اب ایک بار پھر الیکشن سر پر آپہنچا ہے، شاید اس بار کوئی نیا وعدہ کیا جائے ؟

الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2018کی تیاریاں تیز کردی ہیں ، 28فروری تک حلقہ بندیاں مکمل کرنے کا پلان بنایا گیا ہے تاہم نئی مردم شماری کے تحت برابری کی بنیاد پر حلقوں کی تقسیم ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ضلع چکوال میں اس وقت دو قومی اور چار صوبائی حلقے قائم ہیں ، حلقہ این اے60اور حلقہ این اے 61کی آبادی کو برابر سطح پر تقسیم کیا جائیگا ۔ اس وقت ضلع چکوال کی کل آبادی 14 لاکھ98ہزار کے قریب ہے یعنی ایک حلقہ سات لاکھ 49 ہزار تک بنے گا ۔ اسی طرح حلقہ پی پی20، 21، 22 اور پی پی 23میں آبادی کے تناسب کو برابررکھنا ایک چیلنج ہوگا ۔ ضلع چکوال میں ایک صوبائی حلقہ تقریبا3 لاکھ74 ہزار پر مشتمل ہوگا ،نئی مردم شماری کے مطابق تحصیل تلہ گنگ کی 401607ہے جبکہ تحصیل لاوہ کی آبادی ایک لاکھ25ہزار893 ہے یعنی پی پی 23 کیلئے تحصیل تلہ گنگ سے 2 لاکھ 50 ہزار کے قریب آبادی شامل ہوگی، اسی طرح حلقہ پی پی22 میں تحصیل چکوال اور تحصیل کلرکہار ، سے ایک لاکھ 50 ہزار کی آبادی کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ اب حلقہ این اے61 کیلئے تحصیل تلہ گنگ اور تحصیل لاوہ کی آبادی ملائی جائے تو 5 لاکھ27 ہزار 500 بنتی ہے اسی طرح تحصیل کلرکہار اور تحصیل چکوال کی قریبی آبادی تقریبا 2 لاکھ21 ہزار پانچ سو کے قریب درکار ہوگی ۔آبادیوں کے تناسب کو برابر رکھنے کیلئے حلقہ بندیوں کی حدود میں معمولی ردوبدل ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے صوبائی حکومتوں ، اور ضلعی انتظامیہ سے نقشے اور دیگر ضروری ریکارڈ الیکشن کمیشن نے مانگ لیا ہے، تاکہ حلقوں کی آبادیوں کو تقسیم کرتے ہوئے حدود کا خیال رکھا جاسکے ۔ اور ترتیب بھی متاثر نہ ہو ۔
الیکشن2018اگر وقت پر ہوئے تو ضلع چکوال میں دونوں بڑی پارٹیوں ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو اندرون خانہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ق ، پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی تنظیموں کو اس صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا ۔ کیونکہ کسی کے پاس بھی ایک سے زائد امیدوار نہیں ، ضلع چکوال میں جنوری کے بعد سیاسی تبدیلیوں کا آغاز ہو سکتا ہے ۔ اس حوالے سے ضمنی الیکشن پی پی 20کا فیصلہ بھی اثر انداز ہو گا ، کیونکہ اگر مسلم لیگ ن نے حلقہ پی پی 20بڑے مارجن سے جیت لیا تو پارٹی میں زیادہ ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوگی لیکن اگر بڑے مارجن سے ہاری تو نچلی سطح پر بہت سے مہرے کھس سکتے ہیں ۔
تلہ گنگ میانوالی چکوال روڈ انتہائی اہم شاہراہ ہے ، جبکہ تلہ گنگ براستہ ڈھوک پٹھان ، فتح جنگ روڈ بھی اپنی اہمیت کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتی ہے اس روڈ پر روزانہ سینکڑوں بڑی گاڑیاں گزرتی ہے یہ سڑک سامان کی ترسیل کیلئے انتہائی اہم ہے ۔ جبکہ روزانہ ڈھوک پٹھان پل کے بعد قائم ٹول پلازہ پر لاکھوں روپے ٹیکس جمع ہوتا ہے لیکن آج تک اس سڑک کی حالت بہتر نہ ہو سکی ، ڈھوک پٹھان سے لیکر ڈھلیاں موڑ تک تو سڑک اتنی خطرناک اور تنگ ہے کہ کراس کرتی ہوئی بڑی گاڑیاں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں ۔ بارش کے دنوں میں سڑک کئی کئی گھنٹے بلاک ہو جاتی ہے ، اور مال بردار گاڑیاں کوانتظار کرنا پڑتا ہے جس سے وقت کے ضیاع کیساتھ ساتھ بروقت مال کی ترسیل بھی متاثر ہو تی ہے۔ اسی طرح حادثات بھی رونما ہوتے ہیں گزشتہ چند ہفتے قبل بھی ڈھوک پٹھان کے قریب مسافر بس کھائی میں جا گری تھی جس میں27افراد جا ں بحق ہوئے تھے ، ٹریفک قوانین کی خلاف ، تیز رفتاری ، سڑکوں کی خرابی حادثات کی بڑی وجہ ہے ، اسی طرح کمپنیوں کی جانب سے ڈرائیوروں کی تربیت کا کوئی نظام بھی نہیں ہے ، اور نہ ہی ماہانہ بنیادوں پر چیک اپ کرایا جاتا ہے۔ حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں مسافر بسوں کو چلانے والے ڈرائیوروں کی تربیت کیساتھ ساتھ ماہانہ بنیادوں پر کارکردگی کو مانیٹرکرنے کا نظام بھی موجود ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں انسانی جانیں اتنی ارزاں ہیں کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ؟
ایک بار پھر چکوال روڈ پر القائم مل کے قریب مسافر کوچ پل سے نیچے جا گری جس کے نتیجے میں ڈرائیور سمیت چار مسافر جاں بحق ہوئے ۔ اور بیس کے قریب شدید زخمی ، ان اہم شاہراؤں پر بڑھتے ہوئے حادثات کے عوامل کا جائزہ لینے کیلئے حکومت پنجاب کو فی الفورٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے ، تحقیقات کے بعد رپورٹ مرتب کرکے اس پر عملدرآمد کرایا جائے ، ٹریفک قوانین کے متعلق آگاہی ، رات کے وقت تیز لائٹوں کا استعمال ، ڈیوٹی ٹائمنگ ، نیند کی کمی ، نشے کا استعمال ، تیز رفتاری کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹرانسپورٹ کمپنیوں اور ڈرائیوروں کیساتھ سیشن کئے جائیں ، اس کے بعد مسافر کوچوں کی چیکنگ اور فٹنس سرٹیفکیٹ کی فراہمی کا نظام سخت کیا جائے ،جبکہ سڑکوں کی حالت بہتر بنانے اور جن سڑکوں پر ٹریفک بہت زیادہ ہوتی ہے انہیں دو رویہ بنایا جائے ۔ جیسے بلکسر میانوالی روڈ ہے ، اسی طرح تلہ گنگ فتح جنگ روڈ ہے ،اور سرگودھا روڈ شامل ہیں ۔
ممبران اسمبلی کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور خادم اعلی پنجاب کو تلہ گنگ میانوالی بلکسر ، تلہ گنگ فتح جنگ روڈ پر بڑھتے ہوئے حادثات کے متعلق آگاہ کرنا چاہیے ، اور ان شاہراؤں کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close