میرے ایک جاننے والے ہیں مدتوں پہلے انہیں ایک عدد ڈرائیور کی ضرورت پڑ گئی ہم نے کافی تلاش کی اخباروں میں اشتہار دیے مگر ڈرائیور نہ مل سکا وہ روز انہ مجھ سے پتہ کرتے
کوئی بندوبست ہوا کہ نہیں مگر کہاں سے ہوتا اکثر اوقات گھر کے لیے عموما ڈرائیور ذرا مشکل ہی سے ملتے ہیں جو ملتے ہیں وہ معیار پر پورا نہیں اترتے، ایک روز میں اپنے دفتر میں معمول کے کام میں مصروف تھا کہ سردار صاحب کی کال آئی اور سلام دعا کے بعد بولے کہ میرے ایک دوست نے چوآسیدن شاہ میں ایک بندے کے بارے میں بتایا ہے کہ وہاں پر ایک شخص ایسا موجود ہے جو گاڑی چلا سکتا ہے اچھا شریف انسان ہے اور نہ صرف ڈرائیور اچھا ہے بلکہ مالی اور چوکیدار کی ڈیوٹی بھی اچھی کرتا ہے شریف انسان ہے عمر رسیدہ بھی ہے لہٰذا گھر میں بطور ڈرائیور رکھنے کے لیے ہر لحاظ سے موزوں ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب تک نوکری کا کنفرم نہ ہو ادھر آ نہیں سکتا اور ہم اسے دیکھے بھالے بنا نوکری کے لیے حامی بھر نہیں سکتے ،چنانچہ وہ ادھر آ جائے اور گلے پڑے اس سے پہلے ہم چو آ سیدن شاہ جائیں گے اور اسے دیکھیں گے اگر مناسب ہوا تو واپسی پر ساتھ لے آئیں گے اس طرح اس کی ڈرائیونگ کا ٹیسٹ بھی ہو جائے گا،آپ تیار رہیے میں آ را ہوں آپ نے ساتھ جانا ہے،میں اس سے قبل انہیں بتا چکا تھا کہ دفتر ہی ہوں اور کچھ ذیادہ کام نہیں گھنٹے ڈیڑ ھ تک فری ہو جاؤں گا ورنہ شاید میں ٹال جاتا ۔
آدھے گھنٹے بعد میرے دوست میرے دفتر میں موجود تھے ہم نے یہاں سے چوآ سیدن شاہ کا قصد کیا اور تھوڑی دیر بعد ہی سیدن کی نگری میں جا پہنچے،انہیں کال کی تو انہوں نے کلر کہار روڈ پر ڈھٹہ کوٹ آ جانے کا حکم سنا دیا وہاں پہنچے تو ہوٹل کے کھلے سے لان میں دو چار افراد بیٹھے تھے جن میں ہمارے مہربان راجہ صاحب بھی ہمارے مطلوبہ ڈرائیور کے ساتھ موجود تھے،ڈرائیور کا نام غالباً سلطان تھا ،چائے پینے تک راجہ صاحب نے اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیے کہ جناب یہ خاندانی آدمی ہے ،نہ صرف گاڑی چلائے گا بلکہ بھینسوں کے چارے سے لیکر ان کود دہنے تک ہر کام کرے گا ،گاڑی دھوے گا صاف رکھے گا پودوں کو پانی دے گا آپ کے جوتے پالش کرنے کے ساتھ آپ کے کپڑے بھی استری کر دے گا ، بیگم صاحبہ یا خانساماں نہ ہوا تو کوکنگ بھی کر دے گا، ہم دل ہی دل میں بڑے خوش اور مطمئن تھے اور راجہ صاحب کے زبردست مشکور ہو رہے تھے کہ کیسا کمال کا بندہ تلاش کر دیا ، کاش ایسا ایک ہمارے لیے بھی تلاش کر دیں۔
 ابھی ہماری خوشی اپنے عروج وکمال کے درمیان میں بھی نہ پہنچ پائی تھی کہ محترم راجہ صاحب نے ہائیڈروجن بم ہمارے سروں پر دے مارا، جی ہا ں راجہ صاحب نے کہا کہ جناب ملک صاحب اور سردار جی جیسا کہ میں نے آپ کو سلطان کی ہزاروں خوبیاں بتائیں وہاں ایک آدھ اس کی بری عادت بھی ہے کیوں کہ آپ کو تو پتہ ہے کہ انسان خوبیوں خامیوں کا مرقع ہوتا ہے اسی طرح اپنے سلطان میں بھی ایک خامی ہے کہ یہ نئی گاڑی چلاتے چلاتے عموماً سو جاتا ہے مگر آپ فکر نہ کریں آہستہ آہستہ یہ سیکھ بھی جائے گا اور اپنی اس خامی پر قابو بھی پا لے گا ،ہم حیران و پریشان ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے کہ ایسا انسان جسے اپنا کام ٹھیک سے اور ڈھنگ سے کرنا آتا نہیں باقی درجن کام کرنے کا ارادے رکھتا ہے تاہم قبل اس کے کہ میں کچھ کہتا یا نہ سردار صاحب نے ہاتھ کھڑے کیے اور معذرت چاہی کہ جناب میرے جوتے تو تب پالش ہو ں گے اگر میں اس کے ساتھ گئے سفر سے واپس آیا تو،یہ بات ان کی ہر لحاظ سے درست بھی تھی کہ کسی بھی اناڑی شخص کے ساتھ اپنی اوراپنی فیملی کی زندگی اور نئی گاڑی داؤ پر نہی لگائی جا سکتی ۔
جھے پندرہ سال پرانا واقعہ آج کی تبدیلی سرکار کے ڈراوئیورز کو دیکھ کر یا د آیا کہ بائیس سال عوام کو حق حکمرانی دلانے عوامی حکومت قائم کرنے ان کی زندگیوں میں آسانی لانے کے دعویداروں کو جب اللہ نے موقع دیا تو انہوں نے ڈرائیونگ سیٹ پر وہ انا ڑی ڈرائیور بٹھا دیے جو گاڑی چلاتے سو نہیں جاتے بلکہ انہیں گاڑی چلانا آتی ہی نہیں،ان کے ہاتھ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی زمام کار دے کر نوید سنائی گئی کہ کوئی بات نہیں آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ جائیں گے ،تبدیلی تبدیلی کرتے اور نئے پاکستان کی رٹ لگانے والوں نے وقت پڑنے پر قوم کو عثمان بزاروں اور نعیم الحقوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، خود جناب خوشامدیوں کے نرغے یں کیاآئے کہ ان کی دیکھا دیکھی اوپر سے نیچے تک ہر بااختیار کا یہی حال ہے، پہلے والوں میں اوران میں کسی کو کہیں کوئی فرق نظر آتا ہو تو آے کم از کم مجھے تو کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
مجھے فہمیدہ مرزا اور حنا ربانی کھر میں کوئی فرق نظر نہیں آتا،خواجہ آصف اور فردوس عاشق اعوان میں بھی کوئی فرق نہیں،اسی طرح شاہ محمود قریشی اور خورشید شاہ میں بھی کہیں رتی برابر فرق نہیں، آ پ پہلے والی دو جماعتوں کے بعد اس نئی تبدیلی والی جماعت کو دیکھ لیں کہیں بھی کوئی غریب یا کارکن قسم کا بندہ کسی اہم عہدے پر نظر نہیں آے گا سارے پیرا شوٹرز، اکثریت وہ جو کل تک پرویز مشرف کے بغل بچے تھے آج تبدیلی کے ٹرک کے سر پر سوار ہیں، احتساب اور کرپشن کرنے والوں میں سے کسی ایک کو نہیں چھوڑوں گا کے دعوے دار جب میدان میں اترے تو پتہ چلا ہماری تلوار تو دھولر پڑی ہے،ایسے بودے اور بے ڈھنگے کیس بنا بنا کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا کہ جن کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر،خالی کھا گئے کھا گئے کی گردان کرتے سڑکوں گلیوں پر نکلے اور جب اعلیٰ عدالتوں میں پہنچے تو محض ذاتی مخاصمت اور مخالفت پر بنائے کسی بھی کیس کا ثبوت ہی نہیں ،ملزمان کو الٹا کلین چٹ ملنا شروع ہو گئی اور آج وہی لوگ جو کل تک ان کی نظروں میں چور اور مجرم تھے۔
 آج پبلک اکائنٹس کمیٹی کی چئیرمینی لیکر اسی احتساب بیورو کی صبح شام کلاس لے رہے ہیں،یہ ہونا ہی تھا جب کپتان صاحب نے قوم کی تقدیر خواجہ آصفوں اسحق ڈاروں اور مشاہد حسین سیدوں سے لیکر فواد چوہدریوں اسد عمر ،چوہدری سرور ،فیصل وڈووں اور فیض الحسن چوہانوں کے حوالے کر دی اور اوپر سے مژدہ سنایا کہ کوئی بات نہیں یہ آہستہ آہستہ سیکھ جائیں گے،تو نتیجہ یہی آنا تھا پہلے والوں سے لوگ دو تین سال بعد بیزار ہوتے تھے آپ سے فقط آٹھ ماہ میں ہی اکتا گئے، قوم مہنگائی او ربے روزگاری کی چکی میں گھن کی طرح پس رہی ہے اور جب مسائل کے حل کے لیے اپنے حکمرانوں کو دیکھتی ہے تو وہ ایک ہاتھ میں مرغیاں اٹھائے اور دوسرے ہاتھ میں بکریاں پکڑے کھڑے نظر آتے ہیں۔
لوگ پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کے انتظار میں ہیں مگر نہ کہیں کوئی نوکری نظر آ رہی ہے او نہ ہی گھر بلکہ الٹا جن کے پاس تھے ان سے بھی چھینے جا رہے ہیں ،اپنے ریگولائز کیے جا رہے ہیں مگر جیسے نواز شریف کو میڈیکل کی سہولت ملی مگر کوئی عام قیدی ایسی کسی سہولت کے بار میں سوچ بھی نہیں سکتا بالکل اسی طرح جس طرح بنی گالہ ریگولائز ڈ کر لیا گیا کوئی عام فر د اس طرح کی ریگو لائزیشن کا تصور بھی نہی کر سکتا،قوم مر رہی ہے اور آپ اور آپ کا وزیر خزانہ بلاول بھٹو کی انگریزی پر تبصرے کر رہے ہیں جناب عالی آپ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں ایک پارٹی کے لیڈر ہیں عمر میں بلاول سے ڈھائی گنا بڑے ہیں آپ کو تو ذکر بھی نہیں کرنا چاہیے تھا کہ اس کا نام کیا تھا اور اب اس نے کیا رکھ لیا آپ کے وزیر خزانہ جون لیگ کے دورمیں قوم کو بتاتے تھے کہ گیس کا تو بل ہونا ہی نہیں چاہیے ان سے پوچھیں کہ آپ نے قوم کی جیبوں پرگیس بلوں کی شکل میں جو ڈاکے پہ ڈاکے مارے ہیں بتائیے وہ پیسے کب واپس کر رہے ہیں ،ڈالر کو کم از کم اسحق ڈار والی سطح پر ہی لے آئیں کچھ بتائیں تو سہی کہ ایسا کب تک ممکن ہو گا۔
 ایک بار تو ان صاحب نے فرمایا تھا کہ پاکستان 2080میں سپر پاور ہو گا سبحان اللہ سبحان اللہ کیا وژنری لیڈر ہیں ،ا س سے اہم خبر تو میں آپ کو دیتا ہوں کہ جناب آج 2019ہے 2119میں صرف سو سال بعد میرے اور آپ سمیت آج کا تقریبا ہر شخص مٹی کے نیچے ہو گا،آپ کو حکومت آج کے حالات بہتر کرنے کے لیے ملی ہے اگلی صدی کے نہیں کچھ خدا کا خوف کریں اور اس قوم پر رحم کریں ،خدارا اب یہ راگ الاپنا بس کر دیں کہ پہلے والے کھا گئے یہ سن سن کر اس قوم کے کان پک گئے ہیں جو آتا ہے ایسا ہی کہتا ہے مگر لوگوں کو اب آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگ گئی ہے کہ یہ سب کچھ ویسا نہیں تھا جیسا دکھایا گیا تھا اور تبدیلی کا بھیانک چہرہ بھی عیاں ہونا شروع ہو گیا ہے لوگ آج صرف چند ماہ بعد کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ پہلے والے ان سے بدرجہا بہتر تھے اب بھی وقت ہے رک جائیے اور سنبھل جایئے،آپ اس قوم کی آخری امید تھے اور یہ امید ٹوٹنی نہیں چاہیے آپ یو ٹرن کے ماہر ہیں تو ایک یو ٹرن اپنی پارلیمنٹ کی طرف لے لیجیے اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کی عادت ڈالیے تو بات بنے گی ورنہ اسی طرح اگر مزید ایک سال اسمبلی سے ایک بھی بل پاس نہ ہو سکا تو یہ معاملہ آگے نہیں چل پائے گا اور آپ اپنے اعمال کا ذمہ دار کسی اور کو کسی صورت بھی نہیں ٹھہرا سکیں گے،ذاتی پسند و ناپسند کو چھوڑ کر ملک کی فکر کیجیئے اپنے دائیں بائیں دیکھیے اور وہ لوگ ساتھ رکھئیے جو بھلے کڑوی مگر سچ بات کہنے کی جراء ت اور ہمت رکھتے ہوں۔
تاریخ کا کچرا بن کر کوڑے دان میں جانے کی بجائے خدارا کوئی تاریخ رقم کر جایئے،،،اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close