یہ روڈ پر بہہ جانے والا خون کوئی عام خون نہیں یہ ماں باپ کی حسرتوں کا خون ہے یہ دو بچے نہیں یہ دو بوڑھوں کی بھی لاشیں ہیں جن کی تصویر ممکن نہیں کہ اب پیش کی جا سکے 


ہم لوگ جو وقت ہوتا ہے اور جو موقع ہوتا ہے اس موقع پر کچھ باتیں اس وجہ سے نہیں کرتے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو جائے ، کچھ احکامات ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ہنس کر نہیں کرتے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا 


ظہیر علی ولد جمیل اختر عمر 17 سال
وہاب ولد جمیل اختر عمر 14 سال 



دونوں سگے بھائی جو اسلامیہ ہائی سکول کے طالب علم تھے موٹر سائیکل پر سوار تھے کہ ایک ٹریلے کے پچھلے ٹائروں نے انہیں کچل دیا ، ان کی ماں کا لاڈ، یا باپ کی لڑکپن سے نوجوانی کا زینہ چڑھنے والی اولاد کی ضد کے سامنے ہار ، یا پھر کوئی بھی وجہ ہو اس کی ذمہ دار ہماری انتظامیہ ہے جو ان بچوں کو روڈ پر موٹر سائیکل چلانے کی اجازت دیتی ہے 
مجھے نہیں پتہ اس گھر پر کیا قیامت آئی ہوئی ہو گی لیکن اپنے بھانجے، بھتیجے ، اور لڑکپن کی دہلیز پر آذان نوجوانی دینے والے بہت سارے ایسے بچے اور ان کی والدین کی مجبوریاں میں دیکھتا رہتا ہوں ، کلرکہار کے تمام ایف ایس سی کالجز میں تمام ایف ایس سی کے بچے میں موٹرسائیکل پر دیکھتا ہوں ، خدارا ہماری چکوال کی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس صرف موٹر سائیکل کی سواری پر سخت قانون رکھے بہت سارے والدین ان کو دعائیں دیں گے ، خدارا سکول کے اوقات کار میں کلرکہار اور چکوال میں بڑی گاڑیوں کی قانونی بین انٹری کو نافذ کریں اور اگر کوئی ایسا خوش قسمت باپ ہے جس کی اولاد اس دور میں اس کی سنتی ہے تو وہ اپنی اولاد سے موٹرسائیکل واپس لے لے 



یہ صرف چکوال کی نہیں یہ گھر گھر کی کہانی ہے اور کوئی باپ بھی اتنا طاقتور مجھے نظر نہیں آیا جو 14 سال کے بیٹے کے ہاتھوں بے بس نہیں ہو چکا تو خدارا حکومت اس پالیسی کو نافذ کرے 

حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے۔ 
(بشکریہ: تنویر الحسن۔وٹس ایپ)

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me know

 
Top
close